مہمان کالم
کل پنجاب کالج میں ایک بچی درندگی کا شکار بنی تو محافظ کا روپ جس جواں نے دھارا اور پوری دنیا ہلا گیا اس کی معصوم صورت دیکھ کر مجھے بابائے قوم مقبول بٹ شہید کا قول یاد ایاہم دشمن کے اعصاب پر سوار رہیں گے برسوں پہلے بابائے قوم مقبول بٹ شہید نے یہ دعویٰ کیا اور وقت کے گذرتے یہ دعویٰ ایک چٹا سچ بن گیا مقبول بٹ شہید کے ماننے والے کسی نہ کسی انداز میں یہ دشمن کے اعصاب پر سوار ہیں مگر کہیں وہ گنے اور مانے جا رہے ہیں کہیں ان کو ماننا کفر سھمجا جا رہا ہے آج کینزی سلیم جب پنجاب کالج میں مافیا کے ہاتھوں زندہ ماری گئی تو شہر راولاکوٹ کا علی پھر للکار بن گیا جس جرات سے علی للکارا اور پورے پاکستان کو باور کروایا کہ ہم وحدت آزادی خودمختاری چاہتے ضرور ہیں مگر پاکستان کی بیٹیاں بہنیں ہماری بہنیں عزت کے ہم رکھوالے سری نگر راولاکوٹ گلگت جموں کی بیٹی بہن کی طرح دنیا بھر کی صنف نازک ہماری غیرت آج علی کی جرات سے گزشتہ وقت یاد آیا لاہور میں ہی جب جرمن سفیر کو ناک آؤٹ کیا فلسطین دنیا کے زندہ ضمیر لوگوں کو جھنجوڑ رہا تھا تو مقبول بٹ شہید کے پیروکار اس جنگ میں خود منقسم مظلوم اور محکوم ہوتے ان فلسطینی عوام کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے ہیں ستر اور اسّی کی دہائی میں تو فلسطین اور کشمیر یک جان دو قالب بن چکے تھے ۔
مقبول بٹ اور یاسر عرفات ایک صف میں شامل رہے فلسطین کی تحریک سے متاثر ہو کر قائد تحریک امان للہ خان صاحب نے جے کے ایل ایف کا پرچم فلسطینی پرچم کی طرز پر ڈیزائن کیا تب کی این ایس ایف کے لیے فلسطین کشمیر کے برابر بن چلا پھر ایک انہونی ہوئی این ایس ایف زیادہ سائنسی اور نظریاتی بن گئی وہ فلسطین بھول گئی اب جب فلسطین خون میں نہاء گیا تو روائتی اقتدار پرست سیاسی گروہوں کی طرح قوم پرست بھی فلسطین پر کھل کر سامنے نہ آسکے مقبول بٹ شہید کی سرزمین سے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرمناک تجویز تک سامنے آ ئی اس وقت قدرت نے پھر لاج رکھی عین اس وقت جب دنیا بھر کے طلبہ وطالبات امریکہ سے فلسطین کے حق میں نکل پڑے جب مسلم امہ کے تصور اور نعرے کو زندہ دفن کر دیا گیا جب جرمنی نے ہٹلر کی دھرتی ماں ہونے کا ثبوت دیا اور جرمنی میں طلبہ کو فلسطینی قوم کے ساتھ یکجہتی منانے ریاستی وسائل کے استعمال سے روک دیا اس وقت جرمن سفیر مقیم پاکستان کو مہمان خصوصی بلوا کر لاہور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تب وہاں ایک جوان اٹھا اور فلسطین کے سفیر کو للکار دیا ویسے ہی جیسے زولفقار علی بھٹو کو جلسہ عام میں این ایس ایف کے جوانوں نے روک دیا تھا۔
وہ منظر علی عبدللہ نے دہرا دیا بی ایس کے کشمیری طالب علم نے بڑے بڑے ترقی پسند وں وکلا دانشوروں اہل قلم کی موجودگی میں سردار سبز علی خان شہید کی نسل کا سپوت ہونے کا ثبوت دیا علی مقبول بٹ کی پیروکاری کا پرچم گاڑھ گیا الجزیرہ سے بی بی سی تک انڈیپنڈنٹ اردو سے سی این این تک وہ عالمی میڈیا کے سامنے چھا گیا جب اس نے جرمن سفیر کو دوران تقریر روک کر کہا آپ کو پاکستان میں انسانی حقوق کے دعوے دار بننا زیب نہیں دیتا آپ فلسطین پر مظالم کے حصہ دار ہیں آپ نے تو فلسطین کے حق میں جرمنی میں طلبہ کو احتجاج سے روکا علی نے جرمن اسرائیل دوستی بے نقاب کر کے جرمن سامراجیت کو برہنہ کر دیا دنیا نے دیکھا جرمن سفیر سب اخلاقیات بھول گیا اور ایک وحشی درندے کی طرح غیر اخلاقی زبان میں حملہ پر اتر آیا اور علی کو ہال سے باہر نکلوا دیا ستم تو یہ ہوا ہال میں موجود کسی کلمہ گو کسی دو قومی نظرئیے والے سے لیکر بائیں بازو والے تک کسی ایک میں اخلاقی جرات نہ ہوئی کہ وہ بھی فلسطینی قوم سے اظہار یک جہتی کرتے علی کے ساتھ بائر نکل آتا تب تک ایک لاکھ اکہتر ہزار لوگ دنیا بھر میں یہ منظر دیکھ چکے تھے شام چینلز کے ہجوم میں کسی ایک ٹاک شو کے ہوسٹ کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ علی کو بلوا کر دنیا کے سامنے اس کا موقف لائے اجمل جامی نے یہ جرات کی شاہد اس کا پس منظر بھی یہ تھا کہ اجمل جامی بھی جموں کا کشمیری مہاجر ہے اس کو بھی دادا کی ہجرت کا کرب جاگ جاتاہے علی نے کشمیریت کو سرخرو کر دیا تو دنیا بھر میں پاکستان کی لاج بھی رکھ دی کشمیری بے نام ہے کشمیری کی شناخت مٹ چکی ہے گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم علی عبدللہ کو دنیا کے سامنے زرائع ابلاغ نے ایک پاکستانی طالب علم کے طور پیش کیا وہ سب کی عزت بن گیا۔
سچ تو یہ ہے کہ بچہ علی وقت سے پہلے جواں جو ہوگیا میں اس کے جرات اور بہادری کے کارنامے دیکھتے ماضی میں کھو گیا 5اگست 2019کے بھارتی اقدام کے بعد جب سب ہی بھیگی بلی بن کر مصلحت کی چادر اوڑھ کر سو گئے تھے آر پار جموں کشمیر میں صرف ایک آواز اٹھی تھی مجھے وہ منظر مرتے دم تک نہیں بھول سکتا جب پانچ اگست کے دوسرے روز میں اور خواجہ خلیل کشمیری مرحوم ایک ہوٹل پر علی کے والد کے ساتھ بھیٹے اور اس اقدام کے خلاف بڑے لانگ مارچ کی تجویز پیش کی قبولیت کا وقت تھا چند روز بعد جے کے ایل ایف کے مرکزی اجلاس میں اس تجویز کی منظوری ہوئی سات ستمبر کو لانگ مارچ اور گرفتاریوں کے بعد جب تتری نوٹ دھرنا شروع ہوا راولاکوٹ میں سری نگر بنا کر احتجاجی مظاہرے پر پابندی عائد کر دی گئی تب سارے جماعتی کارکن ردعمل میں مظاہرہ سے انکار کر گئے تب علی سکول کا طالب علم تھا کہیں سے وہاں آ پہنچا اور پھر تتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ پر دھرنا دئیے اپنے والد سے رابطہ کر کے آٹھ ستمبر کو راولاکوٹ میری خواہش کو پزیرائی بخش کر بچہ ہوتے ردعمل میں مظاہرہ کروا گیا ورنہ علی وہاں نہ ہوتا تاریخ میں لکھ دیا جاتا کہ سات ستمبر کو ہزاروں افراد لیکر راولاکوٹ سے جانے والاجے کے ایل ایف صرف ایک روز بعد چئیرمین جے کے ایل ایف کے آبائی شہر میں سکوت نہ توڑ سکا ریاست کی اجارہ داری قائم رہی مگر کارکنان کی مصلحت پسند ی کو علی کی معصومیت نے زلت آمیز شکست دی آج وہ علی بچے سے جواں بن گیا آج اس نے فلسطین کو باور کروا دیا ہم تمہیں بھولے نہیں آج علی بہت ساروں کی الماریوں کو کھنگالیں کا سبب بن گیا جو پرانے اوراق سے تحریریں تلاش کریں گے کہ بہادر علی خان شہید کی سرزمین باغی ہے جو علی کے والد چیئرمین جے کے ایل ایف صغیر خان کی استقامت کا ازسر نو جائزہ لیں گی کل کیا ہو گا وہ صرف قدرت کو معلوم ہے ۔
مگر آج کیا ہوا وہ دنیا نے دیکھا دنیا نے یہی دیکھا مقبول بٹ واقعی دشمن کے اعصاب پر سوار ہے ناک منہ عزت نہ جانے کیوں لوگ موروثیت میں ہی ڈھونڈتے ہیں ان میں کیوں نہیں اسلاف تلاش کیے جاتے جو اسلاف کی تقلید کرتے بغاوت کو زندہ کیے ہیں علی نے سبز علی خان سے لیکر بہادر علی خان تک اور مقبول بٹ سے لیکر ہر شہید فلسطینی کی روح کو قرار پہنچایا اور آج پنجاب کالج میں پڑوسی ملک پاکستان کی میری بہن کی عزت پر حملہ اور ننگے کرنے جس جرات سے وہ ڈٹا ہے یہ اظہار ہے کہ مقبول بٹ کے پیروکار اپنے لیے جیے تو کیا جئیے تو جی اے دل زمانے کے لیے کے فلسفہ پر گامزن ہیں علی جو پون صدی سے ہمارے محافظ بن کر قومی خزانہ لوٹ رہے تھے تو نے ان کا قرض ادا کر دیا کہ ہم بلاتنخو اہ بلا لالچ تماری عزت اپنی عزت جان کر اس کے لیے مر مٹ سکتے ہیں ہر آزادی پسند کشمیری کو عزت دی ہم ساروں کی دعائیں وفائیں جفائیں علی کے نام جو ہمارا مان بن گیا علی دب کہ رکھ چھک کے رکھ۔
واپس کریں