مہمان کالم
ان بھلے دنوں کا راولاکوٹ آج سے مختلف نہیں، بہت ہی مختلف تھا۔ ناک کی سیدھ میں بنی کچی پکی دکانیں، بوریوں میں بھرا تھوڑا بہت اناج سامان، پرانی وضع کی ایک آدھ کرسی، لکڑی کا بنا بینچ اور اس پر اکثر ’’ٹہاہ لگا‘‘ دکاندار۔۔۔ یہ منظر یہاں سے وہاں تک ہر طرح چھایا ہوتا تھا۔ اگر ہم سپلائی بازار کے کونے سے یعنی آج کے انٹرنیشنل ہوٹل کے آلے دوالے سے ہوکر دیکھیں سوچیں تو اس طرف تو بس ’’کجوٹا‘‘ ہی تھا اور وہاں بھی چند گھر اس سمت سپلائی ڈپو تھا تو ساتھ پروفیسر شیخ محمود کا خوبصورت گھر اور اس سے متصل مسجد، جو تب ’’جامعہ غوثیہ‘‘ ہونے کے باوجود محض ’’سپلائی والی مسیت‘‘ تھی۔ اس کے سامنے سردار علی محمد خان، جو ڈیلر بھی تھے اور ’’مقامی لیڈر‘‘ بھی، جی ہاں وہی سردار علی محمد، جن کا تصور اپنے منصور بھائی کو دیکھ کر اور انہیں ماضی میں رکھ کر کیا جا سکتا تھا، کی دکان تھی جہاں وہ ایک بینچ پر پڑے پلے پر اکثر نیم دراز ہوتے تھے۔ وہاں سے ذرا آگے بڑھے تو مرحوم و مغفور فضل داد چچا کی دکان تھی۔ اس سے تھوڑا آگے منگ پڑاٹ یا ٹوپی کے ایک بزرگ ’’جنرل سٹور‘‘ سجائے بیٹھے ہوتے تھے، دوسری سمت قاضی کی مشین تھی جو پانی کک کک کی آواز سے پورے ماحول کو ترنم زدہ کرتی تھی۔ ذرا آگے شناختی کارڈ کا دفتر تھا جس پر اوروں کے ساتھ ساتھ اپنے راجہ مشتاق کا راج تھا۔ ادھر ہی صوبیدار افسر خان کا ’’باپار‘‘ تھا، یادش بخیر کہ صوبیدار افسر خان ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے اور ماموں اسحق کے فوجی کلب کے مستقل رکن۔ ان کے سامنے کچھ عرصہ تک محترم شمیم رزاق نے بھی ڈیرا ڈالا۔ میں اپنی یادشت کو بہت زور زور سے کھنگاروں تو مجھے وہاں ہی پرانی وضع کی ایک کچی دکان پر بیٹھا ایک نحیف ناٹا سا شخص نظر آتا ہے۔ شمیم رزاق کسی قدر مرفہ الحال تھے اور مقامی طور پر مضبوط ربط تعلق بھی رکھتے تھے لیکن کسی وجہ سے وہ تب کے ’’اُگروادیوں‘‘ کے قریب تھے، سو ان کی دکان ’مٹھی بھر اُگروادیوں‘ کا مرکز تھی۔ سردار رشید حسرت مرحوم، سردار عابد مرحوم، سردار انور، آج کے بزرگ رہنما سردار قدیر، لالہ صادق جو ابھی بھی سپلائی بازار میں میکینک ہیں، یہ سب لوگ وہاں پائے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ صوبیدار خادم صاحب مرحوم بھی وہاں آتے جاتے تھے (ممکن ہے کہ متذکرہ بالا لوگوں کے تذکرے میں کچھ اوپر نیچے ہو رہا ہو)۔
بہرحال مجھے تو پرانی وضع کی کچی دکان پر بیٹھے نحیف ناٹے شخص کی بات کرنی ہے۔ وہ شخص بہت کم گو سا ہوتا تھا اور انڈے کا سدھن اور تب کا اُگروادی یا مزاحمت کار ہونے کے باوجود بہت دھیمی آواز اور ٹھہرے ہوئے انداز میں بات کرتا تھا۔ وہ کوئی زیادہ پڑھا لکھا تو نہ تھا لیکن ’حرف اچھی طرح سے ٹھوال‘ لیتا تھا، لہٰذا اس کی دکان پر اور کچھ ہو نہ ہو اخبار ضرور ہوتا تھا اور بالتفصیل اسے جوڑ کر کرکے یا پھر روانی سے مگر پڑھتا ضرور تھا۔ کالے یا مٹیالے رنگ کے کپڑے پہنے اس شخص کے کندھے پر ایک ’پرنا‘ تب میں نے ہمیشہ دیکھا جسے کبھی کبھی وہ سر پر پگڑی کی طرح باندھ بھی دیتا تھا… ہاں تو وہ شخص لالہ حیات تھا، میں یہ ہرگز نہیں جانتا کے لالہ حیات کو نظریات کی چاٹ کہاں سے لگی اور مجھے یہ بھی علم نہیں کہ وہ نظریاتی مباحث میں بلند آہنگی سے الجھے بغیر، دوسروں کو معطون کیے بنا ’’پکانظریاتی‘‘ کیسے تھا، لیکن مجھے یہ خبر ہے کہ وہ شخص، جو اپنے حلیے، احوال اور مال اعمال میں بہت ہی ’’عام سا‘‘ تھا، تب سے اب تک اپنی جگہ پر یوں کھڑا رہا کہ کسی کو اس کے ہونے کی خبر فکر نہ تھی لیکن وہ تھا اور بس تھا۔
وقت کے ساتھ تعلق تعارف بڑھا تو معلوم ہوا کہ لالہ حیات مناسب کاروباری فرد ہے جو پوری توجہ سے اپنا کام کرتا ہے نیز یہ کہ وہ ایک اچھے خانوادے سے متعلق ہے۔ لالہ حیات میری دانست میں کم گو، شریف النفس اور لج پال بندہ تھا۔ جموں کشمیر کی آزادی کی سوچ جب سے اس کے اندر اتری، تب سے اس نے ایک محبوبہ کی طرح اس کا پالنہار اور خیال رکھا۔ گزرتی عمر، بیتے وقت اور حالات کی مخدوشی کے باوجود وہ سیدھے سبھائو چلتا رہا۔ جب تھک جاتا تو یقینا رک جاتا ہوا ہو گا، ’ساہ‘ چھوڑتے اور سنبھلنے کے بعد پھر اس کا سفر… بس چل سو چل۔ زندگی کے سفر میں یقینا اسے بے حد مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جوان بیٹے کی گمشدگی نے بلاشبہ اسے اندر باہر سے توڑ کے رکھ دیا تھا۔ میں نے اس بیٹے کے ذکر پر ان کے چہرے پر بکھرا ملال بہت بار دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں نمی محسوس کی، لیکن اُنہوں نے شکوہ کیا نہ کبھی ’’بگیاڑ‘‘ ڈالی۔ وہ اندر ہی اندر اس غم کو پی گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے کاروبار میں بھی کمی آئی۔ اُنہوں نے غالباً کچھ عرصہ آج کے ’’بوری بازار‘‘ یعنی ’’نالہ‘‘ میں بھی دکان جمائی، لیکن جلد ہی وہ اسے بڑھانے پر مجبور ہوئے کہ اب وقت بدل چکا تھا، راولاکوٹ بازار ایک شہر کا چولا پہن چکا تھا سو پرانے انداز، پرانے کردار اور پرانے کاروبار کے لئے گنجائش ذرا کم ہی تھی۔ یہی وہ کیفیت تھی جس کا شکار ہر ’’لالہ حیات‘‘ ہوا، سو وہ بھی اسی کے ہاتھوں مسلے گئے۔ذاتی اور کاروباری زندگی میں اتار چڑھائو آنا فطری ہے، سو لالہ حیات بھی اس کا شکار رہے، لیکن کمال کردار کی بات یہ رہی، مدتوں پہلے کئی دہائیاں قبل، لالہ حیات نے جس نظریاتی اور سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا، ان کا وہ سفر ہرحال میں ایک ہی رفتار اور ردھم سے جاری رہا۔ محاذرائے شماری اور وہاں سے لبریشن فرنٹ… اور پھر لبریشن فرنٹ کے حصے بخرے… ٹوٹ پھوٹ اور سخت ترین حالات کے باوجود لالہ حیات ا پنی سوچ کے محور سے نہیں ہٹا اور دم واپس اسی فکر کی فکر میں غلطاں رہا۔
لالہ حیات کی ’’کاٹھی‘‘ بڑی مزے کی تھی، میں نے لالہ حیات کو کبھی جوان نہیں دیکھا۔ جب دیکھا تب دیکھنے میں وہ ’’ادھ کھڑ‘‘ سے تھے لیکن وہ تب بھی بدمزاج اور اکھڑ نہیں تھے، ہاں تو اب جب میں ’’مستند بوڑھا‘‘ ہو چکا ہوں لالہ تب بھی ویسے یا ویسے کے قریب ہی تھے، بس فرق یہ پڑا تھا کہ جھریوں سے بھرے چہرے پر ایک عدد چشمہ بڑھ یا پڑ گیا تھا۔
لیکن اس کے باوجود لالہ نا ’’طوطاچشم‘‘ تھے اور نہ ہی کبھی ان کی آنکھ کا پانی مرا۔ وہ مقبول بٹ شہید، امان للہ خان، سردار رشید حسرت اور صوبیدار خادم ایسے کرداروں کا ذکر ہمیشہ محبت اور احترام سے کرتے تھے۔ میری دانست میں لالہ حیات کا تاحیات ایک ہی فکر کے ساتھ ’’نبھا‘‘ دراصل ان کی نظریاتی وابستگی اور فطری خوبی تھی۔ وہ کسی بھی کسی بھی طرح کی ’’پختگی‘‘ اور ’’بالیدگی‘‘ کی راہ پر نہیں چلے چڑھے اور یوں وہ ایک ہی راستے کے مسافر رہے۔ اگر وہ ’’شریف بندے‘‘ نہ ہوتے تو وہ بھی بہت کچھ کہتے، سنتے کہ یقینا وہ بہت کچھ جانتے سمجھتے تھے۔ میں نے ذاتی طور پر انہیں شریف، چپ چپیتا مگر معاملہ فہم انسان ’’محسوس‘‘ کیا، وہ اپنی سوچ اور نظریے کے ساتھ اخلاص کو اپنا فرض جانتے تھے، اسی لئے اُنہوں نے اپنے ’’اخلاق‘‘ کو کبھی بھی ایک سطح سے نیچے نہیں آنے دیا اور یوں ذاتی اور سیاسی زندگی کے ’’نامساعد حالات‘‘ میں بھی ان پر ’’حال‘‘ نہیں آیا اور وہ خوش بختی سے اپنی شرافت و نظریات کو بچا کرربّ کے حضور حا حاضر ہوئے۔ لالہ حیات تاحیات ایک ہی راہ کا مسافر رہا۔ وہ دھوپ چھائوں میں ننگے پائوں گرتا پڑتا چلتا رہا۔ اس کا کمال یہ ہے کہ وہ کہیں ’’گرا‘‘ نہیں بس چلتا رہا۔ لالہ حیات بظاہر شاید نظریات کے فروغ میں کوئی بڑا کردار ادا نہ بھی کر سکا ہو لیکن متلون مزاج معاشرے میں مستقل مزاجی اس کا وہ کردار ہے جو اسے صاحب کردار بنا گئی ہے۔ لالہ حیات، غریب، کسی حد تک بے نوا نہ سہی کم نوا اور عام شخص تھا، لیکن اس کی اٹوٹ نظریاتی وابستگی اسے یقینا خاص بنا گئی ہے۔ اختصار سے کہا جائے تو بس یہ کہنا ہو گا کہ لالہ کا اخلاص اور اخلاق اس کی کل متاع تھی۔ ہم جو لالہ حیات کی نظریاتی "ہمراہی "کے" دعویدار "ہیں ہمیں بھی اسی اخلاص، اخلاق اور "خودداری" کو" رہبر" کرتے ہوئے خودنمائی سے دور کرنا ہو گا کہ یہی وہ ’کشتہ‘ ہے جو کشتگان وطن و آزادی کو زندہ جاوید کرتا ہے۔
واپس کریں