دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نابینا۔کالم نگار۔ آصف اشرف
مہمان کالم
مہمان کالم
راولاکوٹ کے مشہور کریکٹر میں ایوب خان ایک بڑا نام تھا دن کو بھی لالٹین جلائے وہ سفر میں رہتا پڑھے لکھے صاحب علم سیانے لوگ اس پر تنقید کرتے وہ ایک جواب دیتا "لو" روشنی نہیں ہے اندھیرا ہے مگر قوم ضد پر رہتی ایوب پاگل ہے روشنی ہی نہیں سویرا بھی ہے ایوب مسکرا دیتا آج شہر راولاکوٹ میں جب دس روز گزر گئے نابینہ افراد جن میں خواتین بھی شامل ہیں انہوں نے سردی میں دھرنا دے رکھا ہے ایک روز دھرنے سے جلوس نکال کر مین راولپنڈی ر راولاکوٹ سڑک پر پیدل ڈیڑھ کلو میٹر کی مسافت طے کر کے ان نابینہ افراد نے احتجاج کرتے مین سڑک بند کر ڈالی تب میں سوچ رہا تھا یہ راولاکوٹ کی مٹی بھی کیا ہے جس کے لولے لنگھڑے ڈورے اور انے بھی مزاحمت کار ہیں دس روز سے دھرنے براجمان یہ نابینا افراد سب کے منہ پر بھیگے جوتے رسید کر گئے ۔
اس دھرنے سے چند فرلانگ دور سرکار اور سرکاری یوم تاسیس منا رہے تھے اور یہ بائر نعرے لگا رہے تھے جب تک غریب بھوکا ہے یہ آزادی جھوٹی ہے مگر ان کا دعوے پھر بھی تھا ہم آزاد ہیں کل ہی تو دو اداروں کے آفیسرز اور چیف سیکرٹری نے اسی راولاکوٹ میں ایکشن کمیٹی سے مزاکرات کر کے عملی ثبوت دیا تھا تماری اسمبلی کھٹہ پتلی ہے تمارے صدر وزیراعظم وزراء ممبران اسمبلی کی کوئی حثیت نہیں ورنہ ان سے تمارے مزاکرات ہوتے آج ہی نہیں گزشتہ سال رات کے اندھیرے میں اڑتالیس ممبران اسمبلی کو باجماعت ووٹ دلا کر بھی باور کروایا گیا تھا نوے کی دہائی میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب ممبران اسمبلی کی خواہش تھی ابراہیم خان وزیراعظم بنیں مگر پنڈی والوں نے راٹھور کو بنوایا اور پھر جب ممبران اسمبلی عتیق خان کو وزارت عظمیٰ دلانے چاہتے ہیں مری سے سکندر حیات کا آرڈر ہوا لیکن پھر بھی دعوی ہے ہم آزاد ہیں ۔
ہاں اس آزادی کا حاصل یہ ہے کہ موروثیت پروان چڑھ کر تیسری نسل کو اقتدار تک پہنچا گئی ان کے کچن بھی قومی خزانے سے چل رہے ہیں مگر معذوروں کو این ٹی ایس پاس کرنے پر ملازمت نہیں مل رہی یعقوب خان کے دور حکومت میں معذوروں کا پانچ فیصد کوٹہ منظور ہوا جو پہلے کم کر کے چار فیصد پھر دو فیصد اور اب انوار سرکار میں ایک فیصد کر دیا گیا دوسری طرف سابق وزراء اعظم کی گاڑیاں خریدنے چودہ کروڑ مختص ہوا کسی شاعر نے کہا تھا حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا۔۔لوگ ٹھرے نہیں حادثے کو دیکھ کر آج اس احتجاج کے باوجود اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔
گزشتہ ماہ دورہ راولاکوٹ میں انوار الحق چودھری جو وعدے ان معزوروں سے کر گئے ان پر عمل درآمد نہیں کیا شہر راولاکوٹ میں موجود کسی عالم دین کہلانے والے کو توفیق نہ ہوئی کہ ان سے اظہار یک جہتی کرنے ان کے پاس آئے نہ کسی نے جمعہ کے خطبہ میں ان کا زکر کیا نہ انڈیا کی ڈاکٹر پر ظلم کے خلاف راولاکوٹ مرکز بنانے والے لب کشائی کر سکے اپنے ایشوز پر آئے روز مظاہرے کرنے والے کسی سیاسی دھڑے کسی طلبہ گروپ کسی تاجر گروپ کسی ملازم تنظیم کسی ٹرانسپورٹرز یونین کسی سیاست کار کو توفیق ہوئی کہ ان کے حق میں شہر کو سڑکوں پر لائے سابق صدر یعقوب خان اور حسن ابراہیم لائے تو گئے مگر ان کی بے بسی دیکھ کر رونا آیا کہ مسلہ کشمیر تو حل کروانے کے وہ دعوے دار ہیں مودی کو بھی شکست دیں گے مگر انوار الحق کی سرکار سے ایک این ٹی ایس پاس نابینہ خاتون جس کی تعلیم قابلیت ٹرپل ماسٹر اور ایم فل ہے اس کی تقرری کروانے وہ بے بس ہیں۔
وہ اسمبلی کا اجلاس بلانے ریکوزیشن پیش نہیں کر سکتے وہ اسمبلی میں پانچ فیصد کوٹہ بحال کرنے کی قرار داد پیش نہیں کر سکتے۔ مجھے ان معزور افراد کی پشت پناہی پر عدنان ظفر پر رشک ہے جو نہ ہمت کرتا ان اندھوں کو دھرنا ہی نہ لگانے دیا جاتا جو دن رات ان کی چوکیداری بھی کر رہا ہے جو اپنے ہاتھوں ان کو رنگ برنگے پکوان بھی پکا کر کھلا رہا ہے مجھے عدنان رزاق پر رشک آتا ہے جو ان معزوروں کی آواز بنے ہے مگر مجھے ساتھ بھیٹی انتظامیہ پر پر کچھ لکھتے شرم آتی ہے جو ان معزوروں سے یہ وعدہ کرنے کے باوجود کہ بلدیہ روز آکر ان کی صفائی کرتا گی اور رات مغرب سے صبع سات بجے تک چار پولیس اہلکار اس دھرنے کی پہرہ داری کریں گے اس وعدے پر عمل درآمد نہ کر سکی۔
اس انتظامیہ سے تو لاکھ درجہ عظیم درویش خالد ہے جو ان معزوروں کی خدمت اپنا فرض جان کر کر رہا ہے مجھے شہر راولاکوٹ کے ہر اس فرد سے بھی یہ دھرنا نفرت سیکھا گیا جس کی آمدن اتنی ضرور ہے کہ وہ درجن بھر معذور وں کو ایک وقت کھانا کھلا دیے آج یہ معزور جب نعرہ بلند کرتے ہیں آنکھوں والو ہمارا ساتھ دو ہم نابینا ضرور ہیں کمزور نہیں میرے سامنے قرآن کی آیت آ جاتی ہے خدا تمہیں دے کر بھی آزماتا ہے اور لیکر بھی آزماتا ہے پھر کیوں ہم صاحب ایمان پہلی صف کے نمازی کیوں کر ان معزور افراد کے ساتھ آکر کچھ دیر اظہار یک جہتی کرتے کیوں نہیں ایک ایک وقت ان کو کھانہ کھلاتے ہم جو صاحب علم ہیں کیوں ان کے حق میں تحریریں لکھتے ہم جو بڑے شعلہ بیان مقرر ہیں کیوں ان کے حق ریلی کر کے تقریر کرتے بجلی آٹا ر گھر کی ضرورت تھی تب ہی سارے نکلے کیا ہر گھر میں ایک معزور پیدا ہو پھر ہم سب نکلیں گے۔
کل جب بجلی آٹے کی تحریک چلی روز اول دعوی کر دیا تھا بارہا لکھا تھا اور کچھ ہو نہ ہو بجلی بلز پر ٹیکس ختم ہوں گے وقت نے سچ ثابت کیا آج پھر دعوی کر رہا ہوں این ٹی ایس پاس نابینہ خاتون کی تقرری کا نوٹیفکیشن ہوگا اور اس دھرنہ سے نوٹیفکیشن لیکر اٹھا جائے گا مختص کوٹہ بحال ہوگا یہی دھرنہ بحال کروائے گا۔
کل مورخ لکھے گا کشمیر کی وہ سرزمینوں جہاں زندہ کھالیں کھنچوا یہ گئی تھیں وہاں نابینہ افراد نے دھرنہ بھی دیا سڑکیں بھی روکی جلوس بھی نکالے اور حق بھی چھینا بس افسوس یہ رہیے گا قصیدہ خوانی کرنے والے عمل میں ساتھ نہ رہے کاش ہر گھر میں ایسے ہی ایک ایک معزور پیدا ہو کسی کا لخت جگر کانا ہو کسی کا ڈورا کسی کی بیٹی نابینہ ہو کسی کی بہری اور سب ہی اعلی تعلیم یافتہ بھی ہوں تب ہر گھر کو ادراک ہو کہ معزوروں کا حق کیا بنتا ہے اور اس حق پر ان کا ساتھ نہ دینے والے کتنے ظالم ہوتے ہیں۔
واپس کریں