قومی خزانے پر عدالتی مراعات کا بوجھ، حقائق اور سوالات
مہمان کالم
سمیع اللہ ملک ۔لاہورہائیکورٹ میں دائرکردہ ایک درخواست میں ان قرضوں کو’’امتیازی‘‘اور’’عدم مساوات پرمبنی‘‘قراردیتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی انہیں ججزکے روبروکی ہے اور پاکستان بارکونسل نے لاہورہائیکورٹ کے ججزکے لئے بلاسود قرضوں پر شدید تحفظات کااظہارکرتے ہوئے مبینہ نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لینے کامطالبہ کیا ہے۔ تاہم قوم یہ مذاق اس سے قبل کئی مرتبہ دیکھ چکی ہے کہ عوام اپنی پارلیمان کے جن افرادکوکرپشن ختم کرنے کے لئے ووٹ دے کرمنتخب کرتی ہے توتنخواہ بڑھانے کے بل پرحکومت اوراپوزیشن ’’عوام کے سامنے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے‘‘دونوں یک جاں دوقالب نظرآتے ہوئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے ہوتے ہیں۔
ایک بیان میں بارکونسل نے اسے ’’غیر اخلاقی‘‘ اور’’غیر قانونی‘‘قراردیااورکہاکہ ’’ایسے اقدامات سے، خاص طورپرملک کی موجودہ بدترین معاشی حالات میں، سرکاری خزانے کوبہت نقصان پہنچتا ہے۔ججوں کے لئے عوامی وسائل سے قرضے کی منظوری کایہ عمل نہ توجائزہے اورنہ ہی قابل قبول ہے جبکہ عوام الناس پہلے ہی افراط زرسے بری طرح متاثرہیں اوران کی معاشی حالت پہلے سے ہی ابترہے،انہیں مہنگائی کاسامناہے۔عوام اور یہاں تک کہ غریبوں سے بھی قرضوں پر20 سے 25 فیصد سودوصول کیاجارہاہے جبکہ ایک جج جوپرکشش تنخواہوں کا پیکج اوردیگرمراعات سے بھی لطف اندوزہورہا ہے، اسے بلاسودقرضہ دینابذات خود ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی،امتیازی سلوک اورعدم مساوات کے مترادف ہے‘‘۔
ساری قوم لاہورہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے ججوں سے بھی توقع رکھتی ہے کہ وہ اس غیراخلاقی اوربلاجوازقرض اورمراعات کوقبول کرنے سے نہ صرف خودانکارکردیں گے بلکہ ججوں سمیت تمام مراعات یافتہ طبقے کوپہلے سے موجود تمام مراعات فوری طور پر بند کرنے کاحکم جاری کریں گے۔یہ مراعات ایک ایسے وقت میں دی جارہی ہیں جب عوام مہنگائی کے باعث دب چکے ہیں اورحکومت بجلی کی قیمتیں بڑھاتی چلی جارہی ہے مگردوسری طرف ہماری اشرافیہ کومالی طورپرمزید مضبوط کیاجارہاہے۔
عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف فراہم کرے وہاں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات ’’رشوت دینے اورعدلیہ پردباؤڈالنے‘‘کا تاثر پیدا کرتے ہیں۔ بلا شبہ عدالتوں میں زیرِالتوا کیسز کی بڑی تعدادنے عدالتی نظام مفلوج کرکے رکھ دیاہے جہاں صرف ان کیسزکوترجیحی بنیادوںپرسناجارہا ہے جوسیاسی حلقوں یاسماج کے اشرافیہ سے متعلق ہیں۔غریب اورمتوسط طبقے کے کیسز 10،10 سال تک عدالتوں میں سنے نہیں جاتے۔یہ المیہ ہے کہ دنیاآگے جارہی ہے اورہم پیچھے جارہے ہیں۔ امریکا کے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے دنیاکے مختلف ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی اورعدالتی نظاموں سے متعلق اعدادوشمارجمع کیے جاتے ہیں۔دنیاکے128ممالک کے ڈیٹا پر مشتمل اس ادارے نے اپنی جوتفصیلات جاری کی ہیں، ان میں قانون کی بالادستی یارول آف لاایک انتہائی اہم انڈکس ہے۔اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیاء کے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہترہے۔رول آف لاء انڈکس کے مطابق نیپال اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے 61ویں، سری لنکا 66ویں اوربھارت69ویں نمبرپر ہے ۔ بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا کے128 ممالک کی فہرست میں120نمبر پر ہے۔
ججزکوبلاسودقرض اورمراعات دئیے جانے کے خلاف نہ صرف وکلا تنظیموں بلکہ سوشل میڈیاپربھی حیرت ظاہرکی گئی ہے۔ انڈسٹریزاورکاروبار بلند شرح سودکی وجہ سے دیوالیہ ہوکربند ہورہے ہیں لیکن پنجاب حکومت ججزکوبلاسودقرض دے رہی ہے اور وفاقی حکومت ججز کو شاہانہ مراعات دینے کابل پاس کرکے اپنے حق میں انہیں ممنون کررہی ہے،جوغلط ہے اس کوٹھیک کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ نئی غلطیاں نہ کریں،اس ملک پررحم کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیاسینیٹیشن ورکریا سکیورٹی گارڈبھی 371ملین روپے کابلاسودقرض حاصل کرسکتا ہے ؟یاججزکوعطاکردہ جیسی مجوزہ مراعات سے کوئی کلرک بھی استفادہ کرسکتاہے جواپنی ساری عمران ججزکی جھڑکیاں سنتے گزاردیتاہے۔ججزکے لئے بلاسود قرض، طاقتورادارے کے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد90 ایکڑ زمین، سینیٹ چیئرمین اور سابق چیئرمین کے لئے بڑی مراعات،کیاپاکستان بناتے وقت یہ طے کیاتھاکہ ملک کی تمام مراعات کاحقدار بس ایک مخصوص طبقہ ہو گا اور باقی ساری قوم ان کی خدمت کے لئے شب وروز غلاموں کی طرح کام کریں گے۔
حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔مارچ 2013ء میں سپیکرقومی اسمبلی ڈاکٹرفہمیدہ مرزانے دفترچھوڑنے سے دوروزقبل بڑی خاموشی سے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس کی خود صدارت کرتے ہوئے اپنے لئے تاحیات ایسی بھاری مراعات کی منظور ی لے لی جس پرپاکستانی عوام کے آج بھی کروڑوں خرچ ہورہے ہیں اوروہ اگردوبارہ ایم این اے یاسپیکرنہ بھی بن سکیں پھربھی انہیں تاحیات یہ مراعات ملتی رہیں گی۔ان بھاری مراعات کے علاوہ جب سے فہمیدہ مرزانے سپیکرکاعہدہ سنبھالا،صرف پانچ برسوں میں فہمیدہ مرزا اوران کے خاوندذوالفقارمرزانے اپنی شوگرملزکے ذمے پچاس کروڑسے زائدکے قرضے معاف کرائے۔اپنے آپ کوتنقیدسے بچانے کے لئے فہمیدہ مرزانے اپنے ساتھ سات سابق سپیکرزقومی اسمبلی کوبھی یہ مراعات دینے کافیصلہ کیا، اس متنازعہ فیصلے سے بھٹواسمبلی کے سپیکرصاحبزادہ فاروق علی خان،فخرامام، الٰہی بخش سومرو، حامدناصرچٹھہ اورچودھری امیرحسین کو بھی ان مراعات سے نوازدیاگیا،یوسف رضاگیلانی کوبھی سابق سپیکرکے طورپریہ مراعات حاصل ہیں۔ اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے چہیتے افسروں کوجوبرسوں پہلے ملازمت سے ریٹائرہوچکے تھے ان کی مدت ملازمت میں تیسری توسیع کردی گئی حالانکہ سپریم کورٹ پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی تھی کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعدکسی کوتوسیع نہیں دی جاسکتی،تاہم سیکرٹری قومی اسمبلی سمیت دس ریٹائرڈ ملازمین کودوبارہ توسیع دی گئی،سینٹ سیکرٹری افتخاربابرکوبھی سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملازمت میں توسیع دی گئی، سپیکرقومی اسمبلی فہمیدہ مرزااپوزیشن اورحکومتی ارکان نے مل کران مراعات کی منظوری قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں دی اورکسی نے اتنی مراعات پرکوئی سوال نہ اٹھایااورخاموشی سے مراعات کے اس پیکیج پردستخط کرد ئیے گئے اورکسی کوکانوں کان خبرتک نہ ہونے دی گئی۔کیا آج تک ہماری عدلیہ نے قوم کے خزانے پراتنے بڑے ڈاکے کاسومونوٹس لیا؟
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اورنیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے2021ء میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیاگیاتھاکہ کیسے پاکستان کے امرا،جاگیردار،سیاسی قائدین اورفوج کوملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں17ارب ڈالرسے زیادہ کااضافی خرچے کاباعث بنتے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس(پائیڈ)کی رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ایک ہائی کورٹ کے جج کواپنی ملازمت کے دوران مفت گھرملتاہے،جس کاکرایہ حکومت دیتی ہے جبکہ بجلی کابل اور سرکاری گاڑی بھی حکومتی کھاتے میں آتے ہیں۔ پائیڈکی رپورٹ کے مطابق اگرجج اپنے گھرمیں رہتے ہیں توان کے گھرکااضافی خرچہ،جودستاویزات میں تقریباً65 ہزارروپے ماہانہ رقم بتائی جاتی ہے،مختص کر دی جاتی ہے۔گھرکاکرایہ ساڑھے تین لاکھ روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس دس لاکھ روپے سے زیادہ،پاکستان میں سپریم کورٹ کے ججزکوملنے والی کچھ مراعات میں اضافے کے اعلان کے بعدکیاججزکی غربت دورہوجائے گی۔ایک مرتبہ پھران مراعات کے بل پرغورکرلیں کہیں ان مراعات کی کمی کی بناپرآپ کے خدشات کی بنا پرکہیں کرپشن کاباب نہ کھل جائے؟
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے
واپس کریں