دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا ہونے والا ہے؟منصور آفاق
مہمان کالم
مہمان کالم
پیجر اور واکی ٹاکی سے کی جانے والی دہشت گردی نے مسلمان ممالک کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ تہذیبوں کے تصادم میں موبائل فون ایک خوفناک ہتھیار میں بدل سکتا ہے۔ اس کی بیٹری ایک معمولی سے کوڈ سے بم میں بدل سکتی ہے۔ پیجر اور واکی ٹاکی کی بیٹریاں تو بہت چھوٹی تھیں۔ موبائل فون کی بیٹری خاصی بڑی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ بڑا دھماکہ ہو گا۔ یعنی جو ہمارے پاس کروڑوں موبائل ہیں یہ کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں۔ تہذیبوں کے تصادم میں ایک بار عرب ممالک نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس کے بعد مغرب کی تمام تر توجہ انرجی کے نئے ذخائر اور نئے ریسورس کی طرف ہو گئی۔ اس وقت مسلمانوں کو اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں کیسے ان انتہائوں تک پہنچ سکتے ہیں جو انہیں محفوظ رکھے۔
اس وقت یورپ کی ساری توجہ ٹیلی گرام پر ہے یہ ایک واٹس ایپ جیسی ایپ ہے ۔یہ واحد چیز ہے جس کے سرور سے بھی معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ ابھی اس کے مالک کو فرانس میں گرفتار کر لیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے فلسطینی مجاہدین کی معلومات فراہم نہیں کیں۔ ٹیلی گرام پہلے روس اور یوکرائن دونوں استعمال کرتے تھے ۔پھر روس نے اسے بین کر دیا کہ اس نے روس کو یوکرائن کی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت دنیا میں یہی ایپ معلومات کے تبادلے کیلئے سب سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ جو لوگ ایک ایپ کا کوڈ حاصل نہ ہونے پر اس کے مالک کو گرفتار کر سکتے ہیں۔
انہوں نے موبائل کمپنیوں سے ان کا ڈیٹا کیسے حاصل نہیں کیا ہو گا اور جس کے پاس بھی موبائل فون کا بنیادی ڈیٹا موجود ہو گا وہ موبائل کی بیٹری کو بم میں بدل سکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی کمپنی کے موبائل فونز کا ڈیٹا دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو وہ ایک لمحے میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کو ہلاک کر سکتے ہیں۔
جیولن اسانج جس نے وکی لیکس سے دنیا کو پریشان کر دیا تھا امریکہ نے اسے مجرم قرار دے رکھا ہے حالانکہ امریکہ اور مغرب کے اظہار آزادی کے قوانین کے تحت اس نے کوئی جرم نہیں ۔روز وہاں اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بے شمار ایسی اسٹوریز آن ایئر ہوتی ہیں مگر چونکہ اس نے جو معلومات دنیا کو فراہم کردی تھیں وہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ دنیا میں پھیلیں سوا سے مجرم قرار دے دیا گیا۔
میرے نزدیک یہ جو پیجر اور واکی ٹاکی سے لبنان میں اسرائیل نے حملہ کیا ہے۔ یہ دنیا کیلئے ٹیکنالوجی کی ایک نئی جنگ کے در وا کر گیا ہے۔ مسلم دنیا کی سمجھ میں آ گیا کہ دنیا ایک نئی جنگ سے متعارف ہونے والی ہے۔ اس سلسلے میں چین کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو گی۔ لگتا ہے چین کی موبائل ٹیکنالوجی پر مسلم ممالک اعتبار کریں گے۔
لیکن موبائل کی بیٹری کا دھماکہ ایک بہت بڑے بزنس کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لئے امریکہ اور مغرب پوری کوشش کریں گےکہ موبائل فون کی بیٹری سے یہ کام نہ لیا جائے۔کیونکہ اس سے اربوں ڈالر کے نقصان کا بھی خد شہ ہے۔
پاکستان میں بھی ٹیکنالوجی کی جنگ جاری ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کی ڈیجیٹل دہشت گردی کو روکنے کیلئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے مگر رک نہیں رہی۔اگر یہاں بھی موبائل فون کی بیٹریوں سے دہشت گردی شروع ہوگئی تو پتہ نہیں کیا ہو گا۔ ابھی وہ صورتحال تصور سے باہر ہے۔ اس وقت لبنان میں جتنے پیجر اور جتنے واکی ٹاکی تھے انہیں ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے کہ خدانخواستہ یہ تمام ہی بیک وقت پھٹ جائیں تو کوئی جانی نقصان نہ ہو۔
کل مجھے ایک دوست نے عجیب و غریب بات بتائی۔ وہ موبائل بنانے والی ایک فیکٹری میں چین میں ملازم ہوا کرتا تھا آج کل ایک پاکستانی کمپنی میں کام کرتا ہے۔ کہنے لگا کہ مجھے میرے افسر نے بلایا اور کہا کہ جو ٹیکنالوجی لبنان میں استعمال ہوئی ہے۔ پیجر اور واکی ٹاکی میں۔ کیا ہم اسے حاصل کر سکتے ہیں۔ تو میں نے کہا اگر ہم خود بیٹریاں بنانے کی فیکٹری لگا لیں تو پھر یہ ممکن ہے۔ یعنی یہ بات پاکستان میں بھی لوگوں نےسوچنا شروع کر دی ہے۔ یقینا ًپاکستانی دہشت گرد بھی اس پر غور کر رہے ہونگے۔ سو معاملہ کی سنگینی کا احساس ابھی کسی کو نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ بہت جلد موبائل فون کی بیٹریاں بم کے طور پر استعمال ہونے لگیں گی _یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ہر ملک اپنی بیٹریاں خود بنائے اور موبائل فون امپورٹ کر ے مگر یہ بھی ممکن ہے کہ موبائل سے کسی بھی بیٹری کو کوئی ایسی کمانڈ دی جا سکتی ہو کہ پھٹ جائے۔
کسی زمانے میں کھلونا بم بہت مشہور تھے لوگوں کو راستے میں پڑ ے مل جاتے جب گھر لاتے اور انہیں چلانے کی کوشش کرتے تھے تو ان کے اندر موجود بم پھٹ پڑتے تھے۔ اب یہ بھی امکان ہے کہ لوگوں کو کہیں پڑا ہوا موبائل مل جائے اور جب وہ اسے اٹھا کر جیب میں ڈالیں تو موبائل فون دھماکے سے پھٹ جائے۔
ابھی تک ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جن کے پیجر اور واکی ٹاکی پھٹے۔کوئی ان کا تعلق سنگاپور سے جوڑ رہا ہے تو کوئی ہانگ گانگ سے۔لیکن ابھی تک اس بات تک نہیں پہنچا جا سکا کہ ان کے کوڈز کیسے دہشت گردوں تک پہنچے۔
بہر حال ایک نئے ہتھیار کی رونمائی ہو چکی ہے جو ہر شخص کے ہاتھ میں ہے۔ اللّٰہ خیر کرے
واپس کریں