امریکی پابندیوں کا اثر: چین اور پاکستان کا جوابی ردعمل۔سمیع اللہ ملک
مہمان کالم
دشمن کے میزائل دفاعی نظام کوناکام بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ایم آئی آروی میزائل میں کئی وارہیڈزہوتے ہیں جوایک ساتھ مختلف اہداف کوبھی نشانہ بناسکتے ہیں جبکہ ایم اے آروی میں صرف ایک وارہیڈہوتاہے لیکن یہ ہدف تک پہنچنے سے پہلے اپنی دشمن کے دفاعی نظام کوکنفیوژکرنے کے لئے اپنی سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے یہ سب سے بہترین صلاحیتوں کے میزائل ہیں جس میں بتدریج مزیداپ گریڈیشن ہورہی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان سمیت چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سمیت اورکئی کمپنیوں پرپابندیاں عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لئے آلات اورٹیکنالوجی کی فراہمی میں ملوث ہیں جبکہ پاکستان نے اس امریکی اقدام کوسیاسی اورجانبدارانہ قراردیاہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر نے 12 ستمبر 2024ء کو پریس بریفنگ میں کہاکہ ’’امریکا مہلک ہتھیاروں کے پھیلاؤمیں ملوث نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرکے بین الاقوامی عدم پھیلاؤکے نظام کومضبوط کرنے کے لئے پرعزم ہے،پاکستان کے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں امریکاکے خدشات کئی سالوں سے’’واضح اورمستقل‘‘ہیں اس لئے آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (اے ای سی اے)اورایکسپورٹ کنٹرول ریفارم ایکٹ (ای سی آراے)کے تحت چین کے تین اداروں، ایک چینی شخصیت اورایک پاکستانی ادارے پربیلسٹک میزائل کے پھیلاؤکی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندیاں عائد کررہاہے۔پاکستانی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس(این ڈی سی)کوشاہین تھری اورابابیل میزائل سسٹمزاورممکنہ طورپر اس سے بھی بڑے سسٹمز کے لئے راکٹ موٹرزکی جانچ کے لئے آلات کی خریداری کے سلسلے میں بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فارمشین بلڈنگ انڈسٹری (آرآئی اے ایم بی)بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اوران کی ترسیل میں ملوث اوران کے ساتھ مل کرکام کررہی ہے جس کی بنا پرچین کی دیگرکمپنیوں’’ہوبئی ہواچانگدا انٹیلی جنٹ ایکوپمنٹ،یونیورسل انٹرپرائز ،ژیان لونگدے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ اورپاکستانی کمپنی انوویٹیو ایکوئپمنٹ بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں جبکہ امریکی پابندیوں کی زدمیں آنے والے چینی شخص کانام لووڈونگی ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مخالفت امریکی پالیسی کاحصہ رہی ہے حالانکہ پاکستان امریکاکاطویل المدت سے شراکت داررہاہے تاہم اب بھی کچھ معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں’’جہاں ہمارے درمیان اختلاف ہوگا،توہم اپنی قومی سکیورٹی کی خاظران اختلافات پرعمل کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے‘‘۔
دنیاجانتی ہے کہ ماضی میں بھی امریکااپنے مفادات کے حصول کے لئے دباؤڈالنے کے لئے شک کی بنیادپرایسے کئی الزامات لگاکر ایسی فہرستیں بناتا رہتا ہے جبکہ خطے میں اپنے نئے غلام مودی کووسیع بنیادوں پرٹیکنالوجیزوپرزہ جات اورسول ایٹمی کلب کی تمام مراعات عنائت کرکے خوداپنی دہرے معیار پربھی کاربند ہے۔دنیاجانتی ہے کہ انڈیااوراسرائیل جوعدم پھیلاؤکے اصولوں پرسختی سے عمل پیراہونے کاجھوٹادعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ امریکاکی ناک کے نیچے جدید فوجی ٹیکنالوجیزکی فراہمی کے معاملے میں ہمیشہ لائسنس کی شرائط نظراندازکرچکے ہیں جبکہ دوہرے معیاراور امتیازی رویہ عالمی عدم پھیلا ؤکے خلاف کام کرنے والی حکومتوں کی ساکھ کونقصان پہنچاتے ہیں،فوجی عدم توازن میں اضافہ کرتے ہیں اوربین الاقوامی امن وسلامتی کوخطرے میں ڈالتے ہیں۔
اس سے قبل امریکانے رواں برس اپریل میں چین کی تین اوربیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر 2023ء میں پاکستان کوبیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مزید کمپنیوں پراسی طرح کی پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس کے علاوہ دسمبر2021میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ طورپرمدد فراہم کرنے کے الزام میں26نومبر2021ء کو 13 پاکستانی کمپنیوں پرپابندیاں عائد کی تھیں۔پاکستان کاوہ میزائل پروگرام جوحالیہ امریکی پابندیوں کانشانہ بن رہاہے،وہ کیاہے؟اس میں کون کون سے میزائل شامل ہیں اورامریکاکوان سے کیاخدشات ہیں؟آج ہم یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کی زدمیں آنے والاپاکستانی میزائل پروگرام آخرہے کیااورحالیہ امریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کوکیسے متاثرکرسکتی ہیں۔
پاکستان کاوہ میزائل پروگرام جس کا تذکرہ امریکی خارجہ کے اعلامیے میں کیاگیااس میں میڈیم رینج یادرمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بلیسٹک میزائل شاہین تھری اورابابیل شامل ہیں جو’’ملٹیپل ری انٹر وہیکل‘‘یاایم آروی میزائل کہلاتے ہیں۔عالمی ماہرین کامانناہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحیتیوں والے میزائل ہیں۔پاکستان نے 2017ء میں ابابیل میزائل کاپہلاتجربہ کرنے کے بعدگذشتہ برس18اکتوبر2023ء کو بھی زمین سے زمین پردرمیانی فاصلے تک مارکرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کاتجربہ کیاتھاجس کے بعدرواں برس23مارچ کوپاکستان ڈے پریڈکے موقع پرپہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
کینبراآسٹریلیاکی نیشنل یونیورسٹی میں سٹریٹیجک اورڈیفنس سٹڈیزکے مطابق یہ جنوبی ایشیامیں پہلاایسا میزائل ہے جو2200 کلو میٹرکے فاصلے تک متعددوار ہیڈزیا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتاہے اور مختلف اہداف کونشانہ بناسکتاہے۔دفاعی ماہرین کے مطابق ابابیل میزائل تین یااس سے زائدنیوکلیئروارہیڈز یا جوہری ہتھیارلے جانے کی صلاحیت رکھتاہے۔یہ ایم آروی میزائل سسٹم ہے جودشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈکوشکست دینے اوربے اثرکرنے کے لئے ڈیزائن کیاگیاہے۔اس میزائل میںموجودہروارہیڈایک سے زیادہ اہداف کونشانہ بناسکتاہے تاہم اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ میزائل ایسے ہائی ویلیواہداف،جوبیلسٹک میزائل ڈیفنس(بی ایم ڈی)شیلڈسے محفوظ بنائے گئے ہوں،کے خلاف پہلی یادوسری سٹرائیک کی بھی صلاحیت رکھتاہے۔
ایم آروی میزائل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرہدف کے قریب پہنچنے پران کے خلاف مخالف سمت میں میزائل ڈیفنس شیلڈیا بیلسٹک میزائل سسٹم موجود ہو تووہ انہیں کنفیوژکرسکتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ایک فاسٹ بالرگیندکوسوئنگ کرتاہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفنس کوتوڑنے کے لئے اپنی رفتارکے ساتھ سوئنگ اورسیم پربھی انحصارکرتاہے۔ایم آئی آرویزمیزائل میں کئی وار ہیڈزہوتے ہیں جوآزادانہ طورپرپروگرامڈ ہوتے ہیں اورآزادانہ طورپرہی اپنے اپنے اہداف کی جانب جاتے ہیں اورہرایک کافلائٹ پاتھ یعنی فضائی راستہ مختلف ہوتاہے۔انڈیا تقریباً ایک دہائی سے بھی زائدعرصے سے بلیسٹک میزائل سسٹم پرکام کررہاہے اوروہ ناصرف اس کے تجربات کرتے رہتے ہیں بلکہ عوامی سطح پراس کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں۔
انڈیانے حال ہی میں پہلے ایم آروی میزائل اگنی فائیوکاایک سے زائدوارہیڈزکے ساتھ تجربہ کیاہے۔یہ انٹرکونٹینینٹل بیلسٹک میزائل ہے جس کی رینج کم ازکم5000-8000 کلو میٹرہے،اس کے علاوانڈیا کا’’اگنی پی‘‘بھی ایم آروی ہے جس کی رینج 2000 کلومیٹر تک ہے جبکہ پاکستانی ابابیل کی رینج محض2200کلومیٹرہے اوریہ پوری دنیامیں سب سے کم رینج تک مارکرنے والاایم آروی ہے لیکن امریکاکوپاکستان کااپنے دفاع میں یہ میزائل جرم لگتاہے حالانکہ ابابیل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لئے ڈیزائن کیاگیاہے لیکن اب امریکا کو2021ء سے شاہین تھری میزائل جس کی رینج 2740 کلومیٹر ہے،اس سے بھی تشویش ہے۔
دراصل ابابیل شاہین تھری میزائل کی اگلی جنریشن ہے۔شاہین تھری کے تجربے کے وقت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیرلیفٹیننٹ جنرل(ر) خالد احمد قدوائی نے ایک بیان میں کہاتھاکہ’’یہ میزائل صرف اورصرف انڈیاکامقابلہ کرنے کے لئے بنایاگیاہے اوراس کامقصد انڈیا میں اہم سٹریٹجک اہداف(خاص طورپر انڈمان اور نیکوبارجزیروں اورمشرق میں وہ مقامات جہاں ان کی نیوکلئیرسب میرین بیسز تعمیرکی جارہی ہیں) کونشانہ بناناہے تاکہ انڈیا کوچھپنے کے لئے کوئی جگہ نہ مل سکے اوریہ غلط فہمی نہ رہے کہ انڈیامیں ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ کاؤنٹریاپہلی سٹرائیک کے لئے اپنے سسٹمزچھپاسکتے ہیں اورپاکستان ان مقامات کونشانہ نہیں بناسکتا‘‘۔
انڈیاکے وزیردفاع رجنات سنگھ سمیت انڈین عہدیدارکئی مواقع پرایسے بیانات دیتے آئے ہیں جن میں یہ اشارہ دیاگیاہے کانڈیانے ایسی صلاحیتیں حاصل کرلی ہیں جواسے پاکستان کے خلاف قبل ازوقت حملہ کرنے کے قابل بناتی ہیں‘‘۔سپرسونک براہموس میزائل جونیوکلئیرہتھیارسے لیس ہے اوراس کے علاوہ انڈیا بہت سے ایسے سسٹمز بنارہاہے جوپہلی سٹرائیک کے لئے زمین،فضااور سمندرسے بھی لانچ ہوسکتے ہیں۔(جاری ہے)
واپس کریں