عادل شاہ زیب
26 ویں آئینی ترمیم نہیں ہونے دیں گے۔ منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہیں بنایا تو پورا ملک مفلوج کر دیں گے۔ آئینی ترمیم بھی ہو گئی اور اسی ترمیم کے تحت قائم کی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس بھی نامزد کر دیا۔اور تو اور ترمیم کی منظوری کے وقت پارلیمان میں احتجاج تک ریکارڈ نہ ہوا اور نہ ہی ترمیم کے خلاف ووٹ ڈالے گئے (چند ووٹوں کے علاوہ)۔ترمیم کی منظوری کے فوراً بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس نہ بننے پر ملک گیر تحریک کا شوشہ چھوڑ دیا۔
ایوان صدر سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی حلف برداری کا دعوت نامہ موصول ہوا تو یہ سوال ذہن میں ابھرا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکلا اور وزیراعلیٰ اس تقریب میں شرکت کریں گے یا بائیکاٹ کریں گے؟لیکن حلف برداری کی تقریب میں پی ٹی آئی کے حامی وکلا کی بڑی تعداد دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ یہ اب 26 ویں ترمیم کے بعد کیسے تحریک چلائیں گے؟
سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ہال میں داخل ہو کر وزرا اعلیٰ کے لیے مخصوص نشستوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔
ان سطور کا خلاصہ یہ ہے ترامیم کے لیے مذاکرات سے ووٹنگ تک اور احتجاج کے اعلان سے حلف برداری میں شرکت تک یہ تمام معاملات فیکسڈ اور طے شدہ تھے۔
نہ صرف یہ بلکہ آئینی بینچ بنانے کی تجویز پاکستان تحریک انصاف کی خواہش پر شامل کی گئی، جس کی گواہی جمعیت علما اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کی قیادتیں دے چکی ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے منظوری کے ساتھ ہی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم بھی آخرکار ضمانت پا کر رہا ہو جاتی ہیں۔
جو اب نہ صرف خیبر پختونخوا کی حکومت بلکہ پارٹی کے معاملات وزیر اعلیٰ ہاؤس کی انیکسی میں رہتے ہوئے اسی بھرپور انداز سے چلائیں گی، جس انداز میں پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت چلائی گئی تھی۔
پشاور میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ارکان قومی اسمبلی اور وزرا تک کے داخلے پر پابندی لگ چکی ہے۔صرف وہی داخل ہو سکیں گے جن سے بشریٰ بی بی ملاقات کرنا چاہتی ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ چند رہنماؤں سے ملاقات کر کے یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
تحریک انصاف کے کم از کم سات ارکان صوبائی اسمبلی بذات خود مجھے یہ بتا چکے ہیں کہ موجودہ صورت حال ان کے لیے قابل قبول نہیں اور وہ جلد اس پر پریس کانفرنس بھی کریں گے۔
ان کے بقول: ’صوبے میں ہر کام کا‘ پرائس ٹیگ ہے۔ ارکان صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ وزرا تک کو بغیر پیسے دیے اپنے کام کروانا ممکن نہیں رہا۔
’ایسے میں اب اگر اراکین اسمبلی کا داخلہ بھی وزیراعلیٰ ہاؤس پر بند کر دیا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ صوبے کے معاملات بشریٰ بی بی چلائیں گی تو یہ ہمارے کے ناقابل برداشت ہے۔‘
ایک رکن صوبائی اسمبلی نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ ’انہوں نے خود کو بچانے کے یہ جو ڈیل کی گئی ہے اسے ہم نہیں مانتے اور ان میں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں۔
’اس لیے ہم 25 سے 30 اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی جلد پریس کانفرنس کر کے عمران خان کی رہائی کی تحریک کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔‘
ان اراکین اسمبلی کے بقول سابق صوبائی وزیر شکیل خان نے عمران خان سے ملاقات میں بدعنوانی کی بالکل درست نشاندہی کی تھی۔لیکن ’پھر وزیر اعلیٰ علی امین نے عمران خان سے مل کر کرپشن کو ایسے جسٹیفائی کیا کہ احتجاج اور جلسوں پر کروڑوں کے خرچے آتے ہیں۔ میں وہ جیب سے تو نہیں ادا کر سکتا۔‘’اس ملاقات کے بعد بدعنوانی کی شکایت کرنے والے وزیر شکیل خان کو کابینہ سے فارغ کر دیا گیا۔
’ایک ایسا صوبہ جہاں آٹھ اضلاع میں پولیس کی عمل داری تقریباً ختم ہو چکی ہے وہاں کی حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی میں بڑھتی ہوئی بے چینی تحریک انصاف کی تقسیم شدہ قیادت کے لیے یقیناً اچھی خبر نہیں۔شیرافضل مروت کا پشاور جا کر دھواں دھار تقریر کرنا کہ صوبائی وزرا صرف وزارتوں میں مشغول ہیں اور عمران خان کی رہائی میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں اوپر بیان کیے گئے حقائق کی تصدیق ہے۔
انہوں نے یقیناً یہ تقریر ناراض اراکین صوبائی اسمبلی کے کہنے پر کی۔ مرکز میں بھی اگر دیکھا جائے تو بیرسٹر گوہر، حامد خان، سردار لطیف کھوسہ اور ایک درجن دوسرے رہنما اپنی الگ الگ سیاست کر رہے ہیں۔
ایسے میں وہ کارکن جو ماریں کھا کھا کر ڈی چوک پہنچتے ہیں، قیادت کے غائب ہونے پر کافی مایوس ہو چکے ہیں۔
لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت انقلاب چوک تک پہنچنے کے لیے ڈیل روڈ کے ذریعے جانے پر مکمل رضامند ہو چکی ہے۔ باقی سب رستوں پر کنٹیرز ہی کنٹینرز ہیں۔اگلا مرحلہ پھر انقلاب چوک سے وزیراعظم ہاؤس تک پہنچنا ہے، جس کے فی الحال دور دور تک کوئی امکانات نہیں۔
واپس کریں