نواز شریف کی واپسی لیکن وزارت عظمیٰ تک پہنچنا کتنا مشکل
عادل شاہ زیب
سابق وزیراعظم نوازشریف پاکستان واپس پہنچ کر ایک بڑے جلسے سے خطاب میں اپنا لائحہ عمل اور پارٹی کا بیانیہ عوام کے سامنے رکھ چکے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی تقریر سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ امید باندھ لی تھی کہ وہ نام لے کر ’مجھے کیوں اور کس نے نکالا‘ پر بات کریں گے۔لیکن ان کی تقریر موجودہ حالات اور توقعات کے بالکل عین مطابق ہی ثابت ہوئی۔نواز شریف یہ سمجھ چکے ہیں ان کی حکومت میں آنے تک ملک کو مفاہمتی سیاست اور دھیمی تقاریر کی ہی ضرورت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قوت برداشت بھی صرف اسی سیاست کے لیے موجود ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اس وقت ملک مزید لڑائیوں اور تقسیم در تقسیم کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت یہ تاثر بن چکا ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ اس تاثر اور ان کی واپسی پر بھرپور پروٹوکول کو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ن لیگ گذشتہ برس ہی اس فیصلے پر پہنچ چکی تھی کہ نواز شریف کی واپسی کے بغیر پارٹی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل نہیں کر پائے گی لیکن ن لیگ یہ فیصلہ بھی کر چکی تھی کہ ان کی واپسی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ہوگی۔جسٹس قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے ساتھ نوازشریف کی واپسی کا اعلان کر دیا گیا۔تقریبا چھ ماہ پہلے ہی یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ نوازشریف نے کب اور کن حالات میں پاکستان واپس جانا ہے اور ہوا بھی اسی طرح۔ اگر ان کی واپسی واقعی ڈیل کا نتیجہ ہے تو پھر یہ سمجھوتہ بہت پہلے ہو چکا ہے۔ن لیگ کے قائد مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے کہ لیول پلئینگ فیلڈ کا تقاضہ ہے کہ 2016 میں عمران خان کو لانے کے لیے جو جو کروایا گیا کیا جائے وہ اسی طرح ’ان ڈو (واپس)‘ کیا جائے۔
یہ تو آنے والے چند ماہ بتائیں گے کہ کیا ان ڈو کیا گیا اور کس طرح ان ڈو کیا گیا لیکن اس وقت ن لیگ کی مشکلات تیزی سے گھٹتی اور تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
ڈیل یا نو ڈیل کی بحث سے آگے بڑھ کر نوشتہ دیوار کو پڑھا جائے تو نواز شریف اس وقت اگلے وزیراعظم بنتے نظر آ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف عام انتخابات تک سکڑتی ہی جائے گی۔ لیکن ن لیگ کے لیے وزارت عظمی تک پہنچنا اتنا آسان نہیں جتنی آسانی سے مخالف جماعتوں نے نوازشریف کی واپسی کو ڈیل سے جوڑ کر وزارت عظمی کو بھی ان کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔
میاں نواز شریف کا سب سے بڑا چیلنج پارٹی میں موجود دھڑے بندی ختم کرکے اپنے ووٹر کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ن لیگ کو خود سے یہ سوال کر کے جواب بھی ڈھونڈنا پڑے گا کہ آج کتنے فیصد نوجوان ووٹر ان کی طرف مائل ہیں؟
اس میں دو رائے نہیں کہ ن لیگ کے پاس مضبوط ٹیم موجود ہے لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں 65 فیصد آبادی 30 سال یا اس سے کم ہے پارٹی کو اب ہر سطح کی قیادت میں نئی نسل کو آگے لانا پڑے گا۔ نواز شریف بے شک خود قائد ہی رہیں کیونکہ ووٹ صرف انہی کا ہے لیکن انہیں اب مریم نواز کو آگے لا کر بھاری ذمے داریاں سونپ دینی چاہیے۔
1988 کے بعد سے نواز شریف پنجاب کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ ن لیگ مشکل سے مشکل حالات میں بھی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی آئی ہے۔
جس کی بڑی مثال 2018 کے انجینئرڈ انتخابات ہیں جس میں دھاندلی کے باوجود ن لیگ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ لیکن ن لیگ کی قیادت کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ آج زمینی حقائق 2018 کے مقابلے میں بہت زیادہ بدل چکے ہیں اور پارٹی کو اگر انتخابات جیتنا ہیں تو نئے حالات کو مدنظر رکھ کر ہی میدان میں اترنا ہو گا۔2018 میں پارٹی پنجاب کے دو مضبوط قلعے راولپنڈی اور فیصل آباد کھو چکی ہے اور اس دفعہ بھی جی ٹی روڈ کے شہری حلقوں میں کانٹے دار مقابلہ ہو گا جس میں نواجون ووٹر کا کردار سب سے اہم ہو گا۔
ایک اور بات جو تمام جماعتوں کو ذہن نشین کر لینی چاہیے وہ یہ کہ 2018 میں جس طرح سے قبل از انتخابات دھاندلی اور آر ٹی ایس ناکام کروایا گیا اس قسم کی ننگی دھاندلی کروانا اب ممکن نہیں رہا۔ ایک کو 12 تو شاید آج بھی بزور طاقت بنایا جا سکتا ہے لیکن ایک کو 16 میں تبدیل کرنا ویسے ہی ہو گا جیسے انتخابات سے پہلے ہی کامیاب امیدوار کا اعلان کر دیا جائے جسے نہ تو دنیا تسلیم کرے گی نہ ہی پاکستانی عوام۔
لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں لمبے چوڑے تجزیے رات 12 بجے تک ہی ویلڈ ہوتے ہیں۔ صبح چھ بجے فیصلہ ساز ایک فیصلہ کر کے تمام تجزیوں کا دھڑن تختہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
واپس کریں