عادل شاہ زیب
معیشت گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور جتنا بڑا یہ مسئلہ ہے اس پر توجہ دینے کے اتنے ہی لمبے چوڑے دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں لیکن آج تک سب کے دعوے دھرے کے دھرے ہی دکھے ہیں۔ چاہے کوئی فوجی جنرل برسراقتدار رہا ہو یا سیاسی جماعتیں، معاشی استحکام کے لیے اصل اور حقیقی کام کسی کے حصے میں نہیں آیا۔
یہاں ایشو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو مورد الزام ٹھراتا ہے لیکن خود اپنے گھر سے کوئی بھی شروع نہیں کرنا چاہتا۔ جب بھی معاشیات پر دسترس رکھنے والے ماہرین سے بات کی انہوں نے کم ہی یہ کہا کہ ان مسائل کا حل نہیں یا معیشت کو ٹریک پر نہیں لایا جا سکتا۔
لیکن یہ مسئلہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آ پایا کہ معاشی تھینک ٹینکس اور کمیٹیاں بن جاتی ہیں، کبھی ٹیکنوکریٹس تو کبھی معیشت دان پروفیسرز اور سیاستدان سب ہی اپنی اپنی باری لگا جاتے ہیں لیکن جو بھی چلا جاتا ہے نیا آنے والا اسے ہی مورد الزام ٹھراتا ہے کہ ستیاناس کر دیا۔
کچھ عرصہ پہلے تک ہم تقریباً دیوالیہ ہو چکے تھے لیکن اب کہیں جا کر معاشی ماہرین کہنے لگے ہیں کہ کچھ اعشاریے اور معیشت سے جڑے اشارے مثبت آنا شروع ہوئے ہیں۔
روپیہ دو سال تک جھٹکے کھانے کے بعد اب کچھ مستحکم ہوا ہے، آئی ایم ایف سے آخری قسط مل چکی ہے، سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ سطح کے وفود کے دورے ہو چکے ہیں اور ہر طرف اچھی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں۔
اور پھر گندم سکینڈل سامنے آ گیا۔ ایک تو اس گندم اور شوگر سکینڈلز سے لگتا ہے ہماری جان تبھی چھوٹے گی جب ان کا استعمال لوگ ختم کر دیں گے (یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کہ جب جب ایسے سکینڈلز آئے کسی نے عوام کو چینی کا استعمال ترک کرنے کا مشورہ دیا تو روٹی مہنگی ہونے پر کسی نے ڈبل روٹی کھانے کا۔)
یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہر سال دو سال بعد ایسے فیصلے جنھیں بلنڈرز کہا جاتا ہے کر دیے جاتے ہیں لیکن ذمہ داران کا تعین نہیں ہو پاتا۔ بس وہی بلیم گیم موجودہ حکمران ماضی کے حکمرانوں کو کوستے تو ماضی والے سکینڈل کا وائٹ پیپر موجودہ حکمرانوں کے خلاف نکال لیتے ہیں اور اس دفعہ تو نگران بھی رگڑے گئے۔اب وہ بیچارے کسان اور گندم کی مزدوری سے جڑے کروڑوں لوگ کس وائٹ پیپر کو کھائیں جو اپنی بمپر کراپ لے کر سڑکوں پر رل رہے ہیں۔
چینی کا استعمال نہ کرنے اور ڈبل روٹی کھانے جیسے ہی کسی بے حس بیان کا انتظار ہے، جو کسانوں کو آکر کہے کہ آپ کا تو کوئی نقصان ہوا ہی نہیں بس سارا سال اور کچھ نہیں تو اسی بمپر فصل کو کھاتے رہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی زرعی معیشت سے جڑے ایسے فیصلے ہوئے، جن میں کبھی گندم امپورٹ کرنے کا بلنڈر ہو جائے یا پھر چینی امپورٹ کرنے کا، اس سے یہی جھلکتا ہے کہ فیصلہ سازوں میں ایسے فیصلے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، جنہیں یہ تک نہیں اندازہ کہ کب کیا فیصلے کرنا ہیں۔
بس ایک وائٹ پیپر یا انکوائری کمیشن بن جاتا ہے لیکن ایسے فیصلوں سے اربوں روپے کما کر معیشت کو ڈبونے والے اور عوام کو پیسنے والے ہر بار سزا سے بچ نکلتا ہے۔
کچھ اسی طرح کا معاملہ سولر سے بجلی بنانے والی انڈسٹری کا بھی ہے، جس میں کافی سارے ایسے مسئلے ہیں، جو ہمارے گردشی قرضے میں ڈوبے انرجی سیکٹر کو دلدل میں مزید دھنساتے جارہے ہیں۔
یہاں ٹیکنیکل مسائل پر تفصیل میں جانے کے بجائے صرف اتنا ہی سمجھنا کافی ہے کہ بڑے بڑے صنعتکار اور کارخانہ دار یا صاحب حیثیت لوگ ٹیکس سے مستثنیٰ سولر انرجی کا سسٹم لگوا کر سسٹم سے آؤٹ ہو چکے ہیں اور اب فی یونٹ 10 روپے میں بجلی خرید رہے ہیں۔ لیکن بیچارہ غریب صارف جو کہ دو تین سو یونٹ استعمال کرتا ہے لیکن سولر انرجی کی استطاعت نہیں رکھتا وہ 50 اور 60 روپے فی یونٹ میں بجلی خریدنے پر مجبور ہے۔
کچھ یہی معاملہ بیمار صنعتوں کی نجکاری کا ہے، جس سے صرف پی آئی اے اور سٹیل مل کا خسارہ سالانہ 850 ارب ہے۔
کمیٹیاں بن چکی ہیں اور کہا گیا کہ جون تک کم از کم پی آئی اے کی نجکاری ہو جائے گی لیکن ابھی تک دو حکمران جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ پبلکی اس معاملے پر اختلاف کا اظہار کر رہی ہیں۔
ایسے میں وللہ عالم نجکاری کا یہ عمل کیسے ہو پائے گا۔ کم از کم ایسے مسائل جو کہ فوراً حل طلب ہیں ان پر تو سیاست سے اجتناب کیا جائے۔ اگر پالیسی اختلاف اتنا بڑا ہے تو کیوں نہیں وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایک ہی ملاقات میں اس کا کوئی حل نہیں نکال لیتے۔ دوسری جانب ٹیکس وصولی کا یہ عالم ہے کہ 30 لاکھ تاجروں کے ہدف میں سے صرف 200 نے رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن کروائی۔ پھر کہا گیا اگر ٹیکس نہیں دیں گے تو نان فائلرز کے پانچ لاکھ سم کارڈز بلاک کر دیے جائیں گے۔ اس پر بھی انکار میں جواب آیا کہ ایسا کرنے میں قانونی قدغنیں ہیں۔
ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکامی گورننس کی ناکامی ہے۔ جب ہمارے سٹوڈیو کے 50 ہزار تنخواہ والے، جس کی تنخواہ 10 دنوں میں ختم ہو جاتی ہے، اس سمیت لاکھوں تنخواہ دار ملازمین سے ٹیکس لیا جا سکتا ہے تو پھر ریاست تاجر حضرات کی فی دکان سے چار سے پانچ ہزار روپے ماہانہ ٹیکس کیوں لینے میں ناکام ہے۔
اربوں روپے کا بزنس کرنے والے سرمایہ داروں نے ٹیکس کے دو ماہرین صرف اس مشورے کے لیے رکھے ہوتے ہیں کہ اپنا ٹیکس کیسے بچایا جائے۔
گاڑی خریدنے والا چند ہزار روپے دے کر فائلر صرف اس لیے بنتا ہے کہ زیادہ ٹیکس ادا کرنے سے بچ جائے۔
گاڑی خریدنے کے بعد کسی نے اس سے پوچھا کہ اگلے سال ٹیکس کیوں فائل نہیں کیا۔
جہاں ٹیکس کے نظام میں لوپ ہولز اور کمزوریاں ڈھونڈنے والوں کو انکم ٹیکس کے امور کا ذہین ماہر مانا جائے وہاں یہ باتیں کرنا عجیب ہیں کہ معیشت کو سنھبالنا ہے تو ٹیکس نیٹ کو بڑھانا پڑے گا۔
ٹیکس نیٹ اگر بڑھا بھی دیں تو نیٹ میں آنے والے کسی کو چند ہزار تھما کر لاکھوں کا ٹیکس ڈکار لیں گے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ بالکل ایسا ہی ہے تو پھر ایسا ہی چلتا رہے گا۔ محنت صرف اوپر نہیں بلکہ ہر سیکٹر میں گراس روٹ لیول پر کرنے کی ضرورت ہے۔
کم از کم ایف بی آر کے نظام میں چند ہزار میں ملکی خزانے کو لاکھوں اور چند لاکھ میں کروڑوں کا نقصان پہنچانے والوں کا رستہ تو روکیں۔ ورنہ جتنے دورے ہو جائیں جتنا سرمایہ آ جائے سال دو سال بعد اسی طرح کی تحریریں بغیر ردوبدل کے کاپی پیسٹ کرنا ہی کافی ہوں گی۔
واپس کریں