مذاکرات کی شنید، پھر انکار لیکن عوام ریلیف کے منتظر
عادل شاہ زیب
آج ایک دفعہ پھر شہ سرخیوں میں مذاکرات کی شنید، انکار اور میں نے نہیں کرنے کے رٹے رٹائے بیانات سے سوچ میں پڑ گیا کہ جب کسی نے کسی سے مذاکرات کرنے ہی نہیں تو پھر اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہے کیوں پیش آتی ہے۔تازہ تین بحث تب شروع ہوئی جب ن لیگ کے اجلاس کے بعد خبر آئی کہ میاں نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت سے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے۔
اس کے بعد تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کا انٹرویو آیا کہ ’یہ لوگ تو ایجنٹ ہیں ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے بلکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات وقت کی اشد ضرورت ہیں۔‘
دوسری جانب تحریک انصاف کے ہی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے بقول مذاکرات کا مینڈیٹ عمران خان نے محمود خان اچکزئی کو دیا ہے اور وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کر کے کوئی تجویز لائیں گے تو اس پر غور کیا جائے گا۔
اس کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا بیان آ جاتا ہے کہ نواز شریف تو مذاکرات چاہتے ہیں لیکن شہباز شریف ایسا ہونے نہیں دیتے کیونکہ ان کی وزارت عظمیٰ چلی جائے گی۔
اس کے بعد سینیٹر عرفان صدیقی نے اس بات کی ہی تردید کر دی کہ نواز شریف نے کسی بھی قسم کی بات چیت کی تجویز دی ہے۔
ان کے بقول تحریک انصاف کے گھر کے باہر ہلکی سی آہٹ بھی ہو تو ان کی بانچھیں کھل جاتی ہیں۔
بہرحال 24 گھنٹے کے بیانات اور ٹی وی پر سرکس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے فلور آف دی ہاؤس پر یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ جب تک نو مئی والا معاملہ حل نہیں ہو گا، کسی سے کوئی بات نہیں ہوگی۔
اب اس سارے معاملے میں پی ٹی آئی کا ایک بڑا ابہام نظر آ رہا ہے اور وہ یہ کہ محمود خان اچکزئی کو انہوں نے اتحاد کا سربراہ بنا کر سیاسی قیادت سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے لیکن ساتھ میں چاہے بانی پی ٹی آئی ہوں یا رؤف حسن وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی اپنی ذاتی حیثیت میں آج بھی اگر نواز شریف، زرداری یا مولانا سے بات کرنا چاہیں تو یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے لیے سب کے دروازے کھلیں گے۔
لیکن محمود خان اچکزئی کیسے اور کس مینڈیٹ کے ساتھ حکومتی قیادت سے مذاکرات کریں، جب خود تحریک انصاف بار بار کہہ رہی ہے کہ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہوں گے۔
تادمِ تحریر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نہ تو پی ٹی آئی سے کسی قسم کے مذاکرات کی خواہش اور نہ اس کے فی الحال کوئی امکانات موجود ہیں۔تحریک انصاف کو اگر کوئی ریلیف ملے گا یا موجودہ سیاسی تعطل اگر کسی طرح ٹوٹ سکتا ہے تو اس کا حل سیاسی قیادت اور پارلیمان سے نکلے گا۔
اس وقت خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں، ایسے میں سیاسی قیادت کو اس بات کا ضرور ادراک ہونا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ صرف مذاکرات ہی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے کچھ انکشافات ایسے کیے ہیں جس پر ملکی قیادت کو سوچنا چاہیے۔
ان کے بقول ڈیرہ اسماعیل کے گردونواح میں شدت پسند گشت کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی چیک پوسٹیں بنا لی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں یہ صورت حال اور وہ بھی وزیراعلیٰ اور گورنر کے آبائی ضلعے میں یقینی طور پر پریشان کن ہے۔مذاکرات کرنے ہیں یا نہیں کرنے لیکن اہم سکیورٹی اور حساس معاملات پر تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اونر شپ لینی پڑے گی۔ یہ تمام جماعتیں اپنی سیاست بھی کریں لیکن کیوں ہمیں کارکردگی اور گورننس کا مقابلہ نہیں نظر آتا؟
تین بڑی جماعتیں تین صوبوں میں حکمران ہیں، ن لیگ پنجاب میں، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں اور پیپلز پارٹی سندھ میں۔
گذشتہ ماہ مریم نواز نے بجلی کی قیمتوں کے معاملے پر عوام کو راحت دی، پیپلز پارٹی نے اس پر شدید تنقید کر کے سندھ میں اپنا ریلیف پروگرام دیا۔ دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان تند و تیز بیانات کا تبادلہ ہوا لیکن موضوع بحث تھا عوام کو کیسے ریلیف دینا ہے۔
امید ہے تحریک انصاف بھی سیاست کے ساتھ خیبر پختونخوا میں اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کرے گی کہ ان کو تیسری مدت دینا صوبے کے عوام کا درست فیصلہ تھا۔ اس وقت تو اپنے ہی ایک صوبائی وزیر شکیل خان جن سے بعد میں استعفیٰ لے لیا گیا، ان کے صوبے میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے انکشافات پر خاصی بحث ہو رہی ہے۔اسی طرح گورنر خیبر پختونخوا کا بھی دعویٰ ہے کہ صوبے میں ٹرانسفر پوسٹنگ سے لے کر ہر کام کا نرخ ہے۔ انہوں نے تو دو سیکرٹریوں کی پوسٹنگ سے متعلق یہ دعویٰ بھی کیا کہ کتنے پیسوں میں معاملات طے پائے۔
بہرحال اصل بات یہی ہے کہ مقابلہ سوشل میڈیا پر من گھڑت بیانیوں کا نہیں بلکہ پرفارمنس اور گورننس کا ہونا چاہیے اور وہ وقت دور نہیں جب ایسا ہو گا۔ عوام تنگ ہیں، انہیں ریلیف چاہیے اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ڈیلیور کیا جائے اور اب بھی اگر یہ سیاسی جماعتیں راحت نہ دے پائیں تو نقصان ہم سب کا ہوگا۔
واپس کریں