عادل شاہ زیب
پاکستانی معیشت کو ٹریک پر لانا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ایک سال قبل تک ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر تھی اور مہنگائی نے تقریباً سب ہی کا جینا حرام کر رکھا تھا۔پاکستان میں مڈل کلاس تقریباً ختم ہی ہو گئی تھی، یا تو آپ امیر تھے اور یا غریب۔ بہرحال کافی محنت کے بعد کم از کم یہ آثار ضرور نظر آنا شروع ہو چکے ہیں کہ معیشت ٹریک پر آ رہی ہے۔
ایک نکتہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ذہن نشین کر لینا چاہیے اور وہ یہ کہ اگر یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اور اس ملک کی لائف لائن ہماری معیشت ہے جو کہ کئی دہائیوں سے بیمار پڑی ہے۔
تمام سٹیک ہولڈرز کی بات اس لیے تحریر کرنا ضروری ہے کہ معیشت کی ناکامی کی ساری ذمہ داری صرف سیاست دانوں پر ڈالنا زیادتی ہو گی، ہر ادارے نے اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ہو عدلیہ یا احتساب کا ادارہ نیب، سب نے ایسے فیصلے اور اقدامات کیے ہیں جس نے معیشت کو کمزور ہی کیا اور سیاست دانوں نے اس میں برابر کا حصہ ڈالا۔
لیکن اب حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ہمارے پاس غلطی کی گنجائش ہی نہیں رہ گئی۔
ہمیں اپنی معیشت کا علاج کرنا ہے اور سب نے مل کر کرنا ہے۔ یہ کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے کے بس کی بات نہیں۔
معیشت اور سیاسی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کو ٹریک پر لانا ناممکن تو نہیں لیکن راستہ بہت ہی دشوار گزار ہے اور تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملکی معیشت کی قیمت پر اب مزید سیاست کرنے پر فل سٹاپ لگانا ہو گا۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے کوئی سرمایہ کاری آئے یا نہ آئے لیکن کم از کم آپٹکس تو سیٹ ہو چکے ہیں کہ کچھ اچھا ہو رہا ہے۔
ایسے میں بھی کچھ تجزیہ کار بتا رہے ہیں کہ صرف دعوی ہیں اور کوئی اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے نہیں تیار۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری لانا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن کم از کم کوشش اور محنت تو ہو رہی ہے اور اسی محنت کے لیے اگر ’آپٹکس‘ کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ مثبت ہی ہے۔
ہم میں سے کون چاہے گا کہ ہمارے بچے زندگی میں ناکام ثابت ہوں؟ کون چاہے گا کہ ہمارے گھر کو خدانخواستہ آگ لگ جائے؟ ہم تمام لوگ دعوی کرتے ہیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہماری پہلی اور آخری محبت بھی، ساتھ میں جیب پر پاکستان کا جھنڈا بھی لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں صرف الفاظ ہی ہیں۔ وے فارورڈ بہت ہی سادہ ہے اور وہ یہ ہے یہ وعدہ کیا جائے کہ معیشت کی قیمت پر نہ تو کوئی سیاست یا صحافت نہیں ہو سکتی۔
چاہے وہ ادارے ہوں سیاسی جماعتیں ہوں یا ہم صحافی، بس ایک چیز ہم سب کو ذہن نشین کرنی ہو گی اور وہ یہ اگر اس ملک نے رہنا ہے اور چلنا ہے تو بیمار معیشت کو ٹھیک کرنا پڑے گا اور اس کے لیے سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔آخر میں بات کرکٹ کی ہو جائے جس کی حالت ہم نے اپنی معیشت سے زیادہ تباہ کر دی ہے۔
امریکہ جیسے نووارد ٹیم سے بری طرح ہارنا اور جس طرح ہم نے انڈیا سے زبردستی شکست چھینی اس پر تو خود انڈیا کے کرکٹنگ فینز بھی حیران ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو سیاسی تقرریوں سے مکمل آزاد کر دیا جائے۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ محسن نقوی کتنے اچھے ایڈمنسٹریٹر ثابت ہوئے ایک سادہ سا سوال ہے کہ ان کا کیا تجربہ ہے کرکٹ بورڈ کو چلانے کا؟
آپ نے وہاب ریاض کو الگ سے سر پر چڑھا رکھا ہے، شین واٹسن کو ایڈیلیڈ میں ایک اوور میں ٹف ٹائم دینے کے علاوہ وہاب ریاض کی کتنی کنٹریبیوشن ہے پاکستان کرکٹ میں؟
ٹیم میں جب چھ سات کھلاڑیوں کی آپس میں بات چیت ہی بند ہو وہ ٹیم کیسے میچ جیت سکتی ہے؟ اور کرکٹ بورڈ اور مینیجمنٹ نے اپنے اقدامات سے ٹیم کے اندر سیاست کو اب تک فروغ ہی دیا ہے۔
بابر اعظم اور رضوان کی اتنی زبردست جوڑی تھی کہ ہم لوگ میچ گنا کرتے تھے کہ پاکستان کیسے بلا شکست اتنے میچ جیت چکا ہے۔
درمیان میں ایک آدھا ٹورنامنٹ کیا ہارے کپتان ہی تبدیل کر دیا گیا اور پھر ٹیم میں دو تین نئے کپتان آ گئے اور پھر بابر کو دوبارہ کپتان بنا دیا گیا۔
اب اس بے چارے کی اس ٹیم میں کون سنے گا جہاں تین چار کپتان بیٹھے ہوں۔ محسن نقوی صاحب کا یہ بیان درست ہے کہ بڑی سرجری کی ضرورت ہے لیکن اب سے پہلے تو انہیں خود رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے اور اس کے بعد اگلا قدم کسی پروفیشنل کرکٹر کو چیئرمین پی سی بی تعینات کرنا چاہیے۔
پاکستان ہارا نہیں پاکستان کو زبردستی ہروایا گیا اور اس کی ذمہ داری پوری ٹیم پر عائد ہوتی صرف بابر اعظم پر نہیں۔
واپس کریں