عادل شاہ زیب
ویسے تو آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کئی حوالوں سے یاد رکھے جائیں گے لیکن خصوصاً اس حوالے سے تاریخ میں امر ہو گئے ہیں کہ انتخابات کے بعد چار دن بعد بھی صورت حال واضح نہیں کہ کون جیت چکا ہے، کسے جتوایا گیا یا کون ہار چکا ہے اور کسے ہروایا گیا۔انتخابات سے قبل چیف الیکشن کمشنر نے خود اعلان کیا تھا کہ کل رات ایک بجے تک تمام نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ دو گھنٹے ابتدائی نتائج آنے کے بعد اچانک رزلٹ آنا رک گئے۔
میڈیا پر کئی گھنٹے شور مچا تو الیکشن کمشنر کو اچانک خیال آیا کہ آر اوز نتائج نہیں بھجوا رہے۔ انہوں نے صبح تین بجے ایک آدھے گھنٹے کا الٹی میٹم دیا۔
خدا خدا کر کے صبح ساڑھے چار بجے پھر نتائج آنا شروع ہوئے اور چار دن گزرنے کے بعد ابھی تک نتائج کا سلسلہ رک نہیں پایا۔
ان انتخابات میں صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جعمیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، جی ڈی اے، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور درجنوں آزاد امیدوار نتائج تبدیل ہونے کے الزامات لگا رہے ہیں۔
بہرحال اگلے چند روز میں یہ واضح ہو جائے گا کہ کس کے ساتھ دھاندلی ہوئی اور کس کے ساتھ ہاتھ ہوا۔
ابھی فی الحال تو مرکز میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں اقتدار کی تقسیم کے فارمولے پر مذاکرات ہو رہے ہیں اور اگر نتائج کو دیکھا جائے تو دونوں پارٹیوں کے پاس سوائے قومی حکومت بنانے کے کوئی آپشن ہی نہیں کیونکہ تحریک انصاف واضح اعلان کر چکی ہے کہ وہ نہ تو ن لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھے گی۔
موجودہ صورت حال میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ تعداد تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ بلے کا نشان چھننے کے بعد قانونی طور پر ان آزاد امیدواروں کو ایک پارٹی کے امیدواروں کی حیثیت سے نہیں دیکھا جائے گا لیکن سیاسی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں آزاد امیدواروں کو حکومت بنانے دیں اور اگر وہ حکومت نہیں بنا پاتے تو اس کے بعد خود حکومت سازی کا آغاز کریں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی بھی عملی سیاست کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے تقریباً کلین سویپ کیا ہے لیکن ابھی تک وہاں وزارت اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں پورے صوبے میں جھاڑو پھیرا وہیں تحریک انصاف کے ایسے لوگ جو کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن سکتے ہیں حیرت انگیز طور پر انتخاب ہارے، تیمور جھگڑا، کامران بنگش، شوکت یوسفزئی، ارباب عاصم، سابق ڈپٹی سپیکر محمود جان وہ لوگ ہیں جو کہ گذشتہ حکومتوں کا حصہ رہے، عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے لیکن صبح چھ بجے انہیں بتایا گیا کہ وہ نہیں جیت پائے۔
ان تمام امیدواروں کے پاس فارم 45 موجود ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی 20 سے 25 ہزار برتری کو ختم کر کے چوتھے اور پانچ ویں نمبر کے امیدواروں کو جتوایا گیا۔
ان میں سے PK-82 پشاور کے ایک حلقے کی مثال دے دیتا ہوں جہاں سے کامران بنگش واضح اکثریت سے جیت چکے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر پانچویں نمبر پر آنے والے آزاد امیدوار ملک طارق جنہوں نے صرف تین ہزار ووٹ حاصل کیے تھے لیکن حتمی نتائج میں وہ فاتح قرار پائے۔
اسی طرح کا معاملہ تیمور جھگڑا کی نشست پر ہوا۔ کسی کو ان لوگوں کی سیاست یا بطور وزرا پرفامنس پر اعتراضات ہو سکتے ہیں لیکن اس طرح کھلم کھلا مینڈیٹ کی توہین پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔
اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے بھی ذاتی احتساب (انٹروسپیکشن) کا وقت ہے، حالات کا تقاضا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک مضبوط حکومت قائم کر کے یہ تاثر دے کہ ہم صوبے کے عوام کو ڈیلیور کرنے آئے ہیں نہ کہ ہر دوسرے دن اسلام آباد پر چڑھائی کرنے۔
اسلام آباد میں جس کی بھی حکومت بنے اسے بھی ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی نہ کہ مخالفین کو فکس کرنے پر۔
پاکستان نے سیاسی عدم استحکام کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے اور یہ مزید چکانی پڑے گی لیکن اب یہ تمام سیاسی قیادت کا امتحان کہ کیسے انتخابات کے بعد بنتے بحران پر فل سٹاپ لگا کر آگے بڑھنا ہے۔آٹھ فروری کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا سبق یہ بھی کہ نوجوان ووٹرز اور قیادت کو نظر انداز کرنے سے جماعتوں کو سکڑنے سے کوئی قوت نہیں بچا سکتی۔ آٹھ فروری کو ایک کروڑ سے زیادہ فرسٹ ٹائم ووٹر سمیت نوجوان ووٹر باہر نکلا اور ایسا نکلا کہ سب کو حیران کر گیا۔
انیس سو ستر اور 80 کی دہائی کی طرز سیاست اب پاکستان میں بے معنی ہو چکی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی مہم پر بہت محنت کی خصوصاً بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی حکمت عملی کو داد دینی پڑے گی لیکن دوسری جانب نہ جلسہ نہ جلوس اور نہ انتخابی نشان، صرف ایک لائن کا منشور قیدی نمبر 804 لیکن وہ زیادہ مؤثر ثابت ہوا، کیوں؟
اس کا جواب پاکستان کی ان تمام سیاسی جماعتوں کو ڈھونڈنا چاہیے جو آج بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان میں ان نوجوانوں کی تعداد اب کروڑوں میں ہے جن کے لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ 2018 سے شروع ہوتی ہے۔ جب تک انہیں ساتھ نہیں ملایا جائے گا قبولیت حاصل ہو بھی گئی لیکن مقبولیت سے آپ دور ہوتے جاؤ گے۔
واپس کریں