دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کہاں ہم، کہاں انقلاب
عادل شاہ زیب
عادل شاہ زیب
بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد العروف ’خاتون آہن‘ کو کئی دہائیوں سے ایک ایسا طاقتور اور مضبوط سیاست دان سمجھا جاتا ہے، جن کا ہاتھ اقتدار کی نبض پر ہوتا ہے۔
15 سال بلا شرکت غیر بنگلہ دیش پر حکمرانی، اپوزیشن تو کیا ہر اٹھنے والی آواز کو کچل ڈالنا، مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا، پھانسیوں پر لٹکا دینا، جماعت اسلامی پر مکمل پابندی وغیرہ، عدالتوں پر مکمل کنٹرول، شیخ حسینہ جموریت اور آمریت کا ایک ایسا امتزاج تھیں، جس سے ان کا تاثر صرف ایک مضبوط اور مطلق العنان سیاست دان کے طور پر ہی ابھرتا رہا۔
ایک طرف ظلم اور جبر لیکن دوسری جانب زبردست معاشی ترقی اور ایسی کارکردگی کہ بہت سے معاملات میں تو بنگلہ دیش انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔
لیکن ظلم اور جبر کے خاتمے کا جب وقت آتا ہے تو وہ ظالم اور جابر حکمرانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔
بہانہ کوٹہ سسٹم بنا، نصف سے زیادہ سرکاری نوکریاں مخصوص لوگوں کے لیے مختص ہیں اور ایک تہائی ان لوگوں کے لیے جن کے آباواجداد کو آزادی کا ہیرو مانا جاتا ہے لیکن ملک بھر میں برسر احتجاج طلبہ اس نظام کو متعصبانہ قرار دے رہے تھے۔
ان کے بقول کوٹہ سسٹم کی آڑ میں شیخ حسینہ کی حکومت عوامی لیگ کے ورکروں اور حکومتی عہدیداروں کے رشہ داروں میں یہ نوکریاں بانٹ رہی ہے۔
یہ احتجاج ایک یونیورسٹی سے شروع ہوا اور پورے ملک میں پھیل گیا، جس کے بعد جماعت اسلامی اور بنگہ دیش نیشلسٹ پارٹی کے کارکنان بھی ان طلبہ کے ساتھ شامل ہوگئے۔اور پھر وہ سوموار آیا جس کی توقع شیخ حسینہ نے شاید ہی کبھی کی ہو کہ ان کا اپنا پسندیدہ فوجی سربراہ جو کہ قریبی رشتہ دار بھی ہو، 15 برس سے وزیراعظم کے سٹاف آفیسر سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر وزیراعظم کے انتہائی قریب رہا ہو، وہ فون کر کے الٹی میٹم دے کہ اگلے 45 منٹ میں مستعفی ہو کر ملک چھوڑ جائیں۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان کی بیگم شیخ حسینہ واجد کی کزن ہیں جبکہ آرمی چیف کے سسر سابق آرمی چیف جنرل محمد مستفیض بھی نہ صرف شیخ مجیب الرحمٰن کے رشتے دار تھے بلکہ 1997 کی حکومت میں انہوں نے شیخ حسینہ کے ساتھ بطور فوجی سربراہ کام کیا تھا۔
ان دونوں پر ایئرفورس کے جہازوں کی خریداری میں کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے تھے۔
شیخ حسینہ واجد کے لیے آرمی چیف کی جانب سے استعفیٰ طلب کرنا کسی جھٹکے سے کم نہ تھا۔وہ دو چیزوں کو سمجھ نہ پائیں۔ ایک تو عوامی غیض و غضب کی شدت کو اور دوسرا اپنی فوج کو کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے قابل اعتماد فوجی سربراہ ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیں گے۔
ان واقعات کو بنگلہ دیش کے آزاد مند عوام کی فتح قرار دیا جا رہا ہے لیکن میں ان واقعات کو اس زاویے سے دیکھتا ہوں کہ اقتدار آزاد منش عوام کے ہاتھ تو نہیں آیا اور نہ ہی ان کی زندگیاں زیادہ بدلیں گی۔ اس ساری قسط میں جیت فوج کی ہوئی جن کی جھولی میں اقتدار آ گرا ہے۔
اب اسے پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں نو مئی ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیراعظم ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور سامان لوٹنے سے لے کر بیڈ روموں میں سیلفیاں لینے جیسے مناظر ہم کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں دیکھ چکے ہیں۔
لیکن پھر پاکستان میں 10 مئی آیا، جس کے بعد سے ہم نے فوج کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتے دیکھا۔
دوسری بات بنگالی ایک قوم ہیں، انقلاب قومیں لاتی ہیں، ہم ابھی تک قوم نہیں بن سکے بلکہ پشتون، بلوچ، پنجابی، سندھی اور کشمیری سوچ سے باہر نہ نکل سکے۔
بنگلہ دیش میں رجیم چینج یا انقلاب 300 سے زیادہ جوان نعشوں کے ذریعے آیا، یہاں انقلاب صرف ایکس اور فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس سے لانے کی کوشش ہوئی۔
پاکستان تحریک انصاف انقلاب لانے کی بات تو کرتی ہے لیکن نو مئی کو انقلاب کی ناکام کوشش نے پارٹی کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ اب اٹک پار جلسہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے جوانوں میں بھی غصہ ہے، یہاں غربت ہے مہنگائی ہے نوکریاں یہاں بھی بغیر رشوت اور سفارش کے ملنا نا ممکن بن چکا ہے، لیکن یہاں 15 سال کسی سیاسی رہنما نے بلا شرکت حکمرانی نہیں کی۔یہاں پہلے ایک سیاسی جماعت کو کاندھوں پر بٹھا کر لایا جاتا ہے، پھر جب وہ ستیاناس کر دیتی ہے تو انہیں تین سال بعد نکال کر پھر مظلوم بنا دیا جاتا ہے۔ 75 برسوں سے یہی ہو رہا ہے اصل مظلوم عوام ہیں، جن میں اب انقلاب لانے کی سکت نہیں رہ گئی اور اگر کسی سیاسی جماعت نے انقلاب لانا بھی ہوا تو اس سیاسی جماعت کو باہر سے امپورٹ کرنا پڑے گا۔
ہمیں اپنی مذہبی اقلیتوں کو قتل اور ایک دوسرے کو غدار قرار دینے سے فرصت ملے تو ہم اپنے ملک کو بدلنے کا سوچیں گے۔ آخر میں یہ بات کرتا چلوں کہ بنگالی انگریز سے لڑے اور ڈٹ کر لڑے، پھر 1971 میں بنگلہ دیش کو آزاد کروانے کے لیے لڑے اور اب ایک ڈکٹیٹر سے آزادی کے لیے لڑے۔
ہمیں خود ہی اپنا موازنہ ان سے کر لینا چاہیے۔ کہاں ہم، کہاں انقلاب!
واپس کریں