دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انسداد عسکریت پسندی کی ملکیت سٹیک ہولڈرز کو لینا ہو گی
عادل شاہ زیب
عادل شاہ زیب
معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھ رہے ہیں اوراب تو شاید آؤٹ کم بھی قریب آ چکا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی ہو، تحریک انصاف ہو یا پھر پی ٹی ایم اور مولانا، سب کی تنقید کا ہدف اس وقت اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔
بغیر اس بحث میں پڑے کہ کون غلط اور کون ٹھیک، موجودہ حالات اس ملک کے لیے تھوڑا سا بھی درد رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔بات سیاسی انتشار اور عدم استحکام سے بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن بجائے بریک لگانے کے ہر طرف ایکسیلیریٹر کو ہی دبایا جا رہا ہے۔ ہمارے اصل مسائل حل نہ ہوئے تو خدانخواستہ وہ اس ملک کو نگل لیں گے۔ ہماری گرتی ہوئی بیمار معیشت اور دہشت گردی ایسے مسائل ہیں جن پر اگر توجہ نہ دی گئی تو حالات قابو میں نہیں رہیں گے۔
گذشتہ کالم تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تحریر کیا تھا اور اس اپیل کے ساتھ کہ اس مسئلے پر سیاست نہ کی جائے۔ لیکن نہ صرف اپوزیشن کی زیادہ تر جماعتیں اس مسئلے پر سیاست ہی کر رہی ہیں بلکہ حکومت بھی آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کر کے شاید کہیں مصروف ہو گئی ہے۔
شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب فوج اور پولیس کے جوانوں کی نعشیں نہ گریں۔ ان کی میتیں اسی ملک کے گھروں میں جا رہی ہیں۔
معیشت کی بحالی کے لیے اگر دن رات ایک کر کے بھی کام کیا جائے لیکن جہاں امن اور سیکیورٹی نہ ہو وہاں معاشی استحکام تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
گذشتہ کالم میں بھی تحریر کر چکا ہوں کہ دہشت گردی نے چار دہائیوں سے ہمارے ملک، معاشرے اور ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے اور آرمی پبلک سکول جیسے کئی تو ایسے سانحے اور واقعات ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا حتیٰ کہ انڈیا کو بھی رلا دیا تھا۔
ہم بےنظیر بھٹو اور بشیر بلور جیسے توانا رہنما اور کئی جید علما دین کھو چکے ہیں۔ پولیس اور فوج جتنی قربانیاں دے چکے ہیں وہ بےحساب ہیں۔
آخری بار جب سوات اور سابقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے آپریشن کیے گئے تو اس کے بعد ہم نے ملک کو امن کی طرف واپس لوٹتے دیکھا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی گئیں تب کہیں جا کر پاکستانیوں بالخصوص پختونوں نے سکھ کا سانس لیا۔
لیکن اس کے بعد جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تو ہم نے اسے اپنی جیت سمجھا اور دنیا کے سامنے اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹا۔ غلامی کی زنجیریں توڑنے والے بیان سے لے کر کابل میں ڈی جی آئی ایس آئی کی چائے کی پیالی تک وہ واقعات ہیں جن میں ہم نے کھل کر طالبان کی جیت کا جشن منایا۔باوجود اس کے کہ ہم جیسے کچھ لوگ یہ کہتے رہے کہ طالبان کی فتح کا سپیل اوور آئے گا اور اس کے بعد پاکستان خصوصاً پختونخوا اور سابقہ فاٹا میں عسکریت پسند تنظیمیں مضبوط ہوں گی۔ لیکن ہمیں کہا گیا نہیں اب نہ تو انڈیا افغانستان کے رستے پاکستان میں مداخلت کر سکے گا اور نہ ٹی ٹی پی وہ کر سکے گی جو اس سے پہلے افغانستان سے کرتی آئی ہے۔
ہم نے دنیا کو ایک دفعہ پھر یہ بھی باور کروایا کہ دیکھیں طالبان ہمارے زیراثر ہیں۔ ہماری سنتے ہیں ہم سنھبال لیں گے۔ ہم انہیں سھنبالتے کیا، انہیں سھنبالنے کی تگ و دو میں ایسی ڈگر پر چل پڑے کہ افغان طالبان اس وقت پاکستان کے ایک دشمن ہمسائے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
ایسی صورت حال میں آگے کی راہ نکالنا صرف فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز خصوصاً سیاسی جماعتوں کو سیاست کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے آنے والی نسلوں کے لیے عسکریت پسندی کے خلاف پالیسی ہو سٹریٹیجی یا جنگ ہو اس کی ملکیت لینا پڑے گی۔
میڈیا کو بھی بجائے اس پر بحث کرنے کہ عزم استحکام آپریشن ہے سٹریٹیجی ہے یا پالیسی بلکہ توجہ اس پر ہونا چاہیے کہ عسکریت پسندی کے خلاف اس جدوجہد کے لیے اتفاق رائے کیسے پیدا کیا جائے؟
واپس کریں