اہل سیاست و صحافت کا ڈیل اور ڈھیل سے چھٹکارا ناممکن
عادل شاہ زیب
چاہے جو بھی حالات ہوں، ڈیل اور ڈھیل، دو ایسے الفاظ ہیں جن سے اہل سیاست اور صحافت کا چھٹکارا ناممکن ہی لگتا ہے۔زیادہ دور نہ بھی جائیں 2018 کے عام انتخابات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ڈیل کرنے اور انہیں مکمل ڈھیل دینے کی گرد گھومتا رہا اور 2024 کے الیکشن سے پہلے ڈھنڈورا مچا کہ نواز شریف ڈیل کر کے آئے ہیں اور ن لیگ کو ڈھیل مل چکی ہے۔
نتائج آئے تو کہا گیا کہ اصل ڈیل تو شہباز شریف کے ساتھ ہوئی۔ اب یہ قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو مذاکرات کے نتیجے میں ڈھیل دے دی گئی ہے جس کی ایک مثال پختونخوا میں مشہور و معروف افطاری ہے جس سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بمعہ کابینہ بھرپور لطف اندوز ہوئے۔
ڈیل اور ڈھیل کے گرد یہ ساری گفتگو فی الحال قیاس آرائیوں پر ہی مبنی ہے اور ایسی کوئی مصدقہ معلومات سامنے نہیں آئیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان کوئی ڈیل ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے۔
یہ تاثر عمران خان کی جیل میں کی گئی حالیہ گفتگو سے بھی زائل ہو جاتا ہے جس میں انہوں نے براہ راست نام لے کر الزام لگایا کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کس کی ایما پر ہوا، یہ الگ بات کہ وہ جہاں فوج کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں وہیں وہ ان سے بات چیت کے لیے تیار بھی ہیں۔
دوسری طرف کی خبر بھی چند سینیئر صحافی دے چکے ہیں جن کے بقول نو مئی کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے والے ٹولے کو کوئی چھوٹ نہیں دی جا سکتی اور تحریک انصاف سے ڈیل تو دور کی بات فی الحال مذاکرات کا بھی کوئی امکان نہیں۔
اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے تو سادہ سی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ملکی اور ریاستی معاملات چلانے اور آگے بڑھنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی بیانیوں کو بالائے طاق رکھنا ہو گا، خصوصاً تحریک انصاف کو اپنی روش اور ریاست کو چیلنج کرنے کا بیانیہ ترک کرنا ہو گا۔
لیکن تحریک انصاف کی سوچ کو پرکھا جائے تو تاثر یہ ملتا ہے کہ اس وقت عمران خان سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے خط لکھنے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی اس میں پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانا چاہیے اور یہ حکمت عملی عمران خان کی جیل میں کی گئی گفتگو میں صاف جھلک بھی رہی ہے۔
یہاں بات صرف عمران خان کی نہیں، گذشتہ دو سال میں جو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عمران خان نے بنایا اس کی غلط اور صحیح کی بحث میں پڑے بغیر، اس حقیقت کو ماننا ضروری ہے کہ وہ بیانیہ ووٹرز اور سپورٹرز نے تسلیم کیا۔
اب اگر تحریک انصاف چاہے بھی تو اپنے اس بیانیے سے پیچھے ہٹنا ان کے لیے بہت ہی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ کور کمانڈر پشاور نے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو افطاری پر مدعو کیا اور وہاں جا کر تحریک انصاف نے بھی یہ اچھا تاثر دیا کہ صوبے کی حکمران جماعت کی حیثیت سے وہ معاملات کو درست سمت میں لے جانا اور چلانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس کے بعد خود تحریک انصاف کے کارکنان اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں نے اپنی ہی صوبائی حکومت کا ایسا جینا حرام کر دیا کہ وزیراعلیٰ علی امین سے لے کر بیرسٹر سیف تک کو ابھی تک صفائیاں دینی پڑ رہی ہیں لیکن ان کی جان بخشی نہیں ہو رہی۔
نتیجتاً ہم نے دیکھا کہ عمران خان نے فوج سے معاملات طے ہونے کا تاثر زائل کرنے کے لیے میڈیا ٹاک میں ایک دفعہ پھر فوج کی قیادت پر براہ راست الزام لگا دیے۔
اسی طرح کی ایک اور مثال شیرافضل مروت جیسے تحریک انصاف کے ان چند رہنماؤں کی ہے جو کہ مفاہمت کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ان کے خلاف اپنی ہی پارٹی کی سوشل میڈیا مہم اتنی زور سے چل رہی ہے کہ اپنی جارحانہ تقاریر اور تند و تیز بیانات کے لیے مشہور مروت صاحب اس وقت دفاعی پوزیشن اختیار کر بیٹھے ہیں۔
یہ سب تفصیلاً بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کی جڑ تک پہنچا جا سکے۔ بدقسمتی سے اس وقت نہ تو تحریک انصاف کا بیانیہ مدھم پڑتا نظر آ رہا ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ بیٹھ کر وہ کرنے کو تیار ہے جو کہ عمران خان چاہتے ہیں۔
خان کا بیانیہ اب واضح ہے، اور وہ یہ ہے کہ آٹھ فروری سے پہلے ان پر جو مقدمات بنائے گئے اور نو مئی کے بعد ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہوا اور اس غلطی کو اگر تسلیم کیا جائے تو وہ بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
لیکن اسٹیبلشمنٹ اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ نو مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل تحریک انصاف کی لیڈر شپ نے کیا اور ان ملزمان کے لیے قطعاً کوئی معافی نہیں جو ریاست کے اوپر حملہ آور ہوئے۔ اب دونوں طرف کی سوچ قارئین پرکھ لیں تو اندازہ ہو گا یہ ایسا ڈیڈلاک ہے جس کی چابی فی الحال کھو چکی ہے۔بہرحال یہ سوچ ضرورموجود ہے کہ اس چابی کو ڈھونڈ کر ڈیڈلاک کو توڑنا حالات کا تقاضا ہے لیکن ’نو مئی کی قیمت پر نہیں۔‘
اگر حالات ایسے ہی رہے تو عید کے بعد مظاہرے، پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کے ایک نئے موسم کا آغاز ہو گا جو سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے مضر ہی ثابت ہو گا۔ دوسری جانب حکومت کے ہاں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں، ن لیگ کے سینیئر رہنماؤں کا وزیرداخلہ محسن نقوی کے خلاف کھل کر سامنے آنا، نوازشریف کو سسٹم سے مائنس کرنے کے بیانیے کو پروان چڑھانا کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
فی الحال یہ بیانات صرف اشارے یا دبے الفاظ میں پیغام رسانی ہے، لیکن اگر ان معاملات کو نہ سنبھالا گیا تو شہباز شریف حکومت کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔
ایسے میں پیپلز پارٹی کی پراسرار خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ اگر معاملات بالکل نارمل ہوتے تو رانا ثنا اللہ آئے روز وزیر داخلہ کو آڑے ہاتھوں نہ لیتے بلکہ وزیراعظم ابھی تک وزیرداخلہ کی شکایت لے کر صدر مملکت آصف زرداری کے پاس پہنچ چکے ہوتے۔
عید کے بعد حکومت کے اصل چیلنجز کا آغاز ہو گا جب ایک طرف تحریک انصاف کی سربراہی میں گرینڈ اپوزیشن سڑکوں پر ہو گی، مولانا فضل الرحمان سڑک کی دوسری جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہوں گے اور محسن نقوی بطور وزیرداخلہ اپنی رٹ مزید مضبوط کر رہے ہوں گے۔
جبکہ ن لیگ اس کشمکش میں ہو گی کہ کیا نوازشریف کو مائنس کرنے کا بیانیہ آگے بڑھایا جائے یا وفاق میں محسن نقوی کے آگے بند باندھ کر شہباز شریف کی حکومت کو مضبوط کیا جائے۔
واپس کریں