عادل شاہ زیب
سیاسی مخالفین کا اعتراض ہے کہ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے سامنے کئی چیلنج موجود ہیں۔شطرنج کا بورڈ سج چکا ہے اور بالآخر الیکشن کمیشن بھی جھجھکتے سہی لیکن اعلان کر چکا ہے کہ اب گیم آن ہے اور آن ہی رہے گی۔آٹھ فروری کو پاکستان کے عوام اپنے آنے والے حکمران کا فیصلہ کریں گے۔ آئین تو یہی کہتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے کرنا ہے لیکن کچھ سیاسی جماعتیں پہلے ہی اعلان کر چکی ہیں کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ میاں نواز شریف کو ہی وزیراعظم بنوایا جائے گا۔
پیپلز پارٹی ہو تحریک انصاف ہو یا پھر جے یو آئی یہ تین جماعتیں تواتر سے یہی بات کر رہی ہیں کہ ن لیگ ایک باقاعدہ ڈیل کے تحت اپنے قائد کو واپس لائی ہے اور اسی ڈیل کے تحت نواز شریف کو چوتھی دفعہ وزیراعظم بنوانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور سپورٹ اور حمایت حاصل ہے۔
یہ تو یہ تین جماعتیں ہی بتا سکتی ہیں کہ وہ کس بنیاد پر یہ تاثر قائم کر رہی ہیں لیکن بظاہر اسٹیبلشمنٹ اس وقت کسی ایک سیاسی جماعت سے ڈیل یا سمجھوتہ کر بھی لے تو اس کا بیڑا پار لگوانا اب 2013 اور 2018 کی طرح آسان نہیں رہا۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ن لیگ کی واقعی ڈیل کر چکی ہے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ اس ڈیل کے ذریعے ن لیگ اقتدار بھی حاصل کر لے گی (میرے خیال میں ن لیگ کے لیے چیلنجز اتنے ہیں کہ صرف مقتدرہ کی مدد کافی نہیں ہوگی) پھر بھی میری دانست میں آئندہ عام انتخابات ن لیگ کے لیے اتنے ہی چیلنجنگ ہیں جتنے کہ تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی کے لیے۔16 ماہ اقتدار میں رہنے کی ن لیگ نے ضمنی انتخابات کے مایوس کن نتائج کی صورت میں قیمت چکائی اور وہ نتائج زمینی حالات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ اس مرتبہ نیا وزیر اعظم لاہور سے نہیں ہوگا۔
اس وقت تحریک انصاف اچھی خاصی سکڑ چکی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں مزید سکڑے گی۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ ن لیگ کا مقابلہ تو اس تحریک انصاف سے ہو گا جس کی قیادت چھوڑ کر چلی گئی اور یا جیلوں میں ہے تو پھر تو پنجاب میں ن لیگ کو سویپ کرنا چاہیے لیکن یہ معرکہ اتنا آسان نہیں ہے۔
کم از کم 1988 سے لے کر 2018 تک پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ ن لیگ مخالف ووٹ بینک سے ہی رہا ہے چاہے وہ کبھی پیپلز پارٹی کی صورت میں تھا یا پھر تحریک انصاف کی صورت میں، اور یہ ووٹ آج بھی جوں کا توں موجود ہے اور یقیناً پول بھی ہو گا۔ن لیگ مخالف ووٹ مضبوط ہے اور موجود بھی ہے کہ ن لیگ کا اپنا ووٹ مضبوط تو ہے لیکن ناراض اور نالاں ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ن لیگ کے سب سے بڑا چیلنج اپنے کور ووٹر اور حامی کو منا کر اپنے پاس لانا ہو گا۔ نواز شریف یہ کام پہلے بھی کر چکے ہیں لیکن اس بار شاہد حالات کھٹن اور سخت ہیں۔
بہرحال اس تمام تر گفتگو کے باوجود گذشتہ کالم کا نوشتہ دیوار ایک دفعہ پھر شیئر کر دیتا ہوں جس میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی اور وہ یہ کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنتے نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس وقت ن لیگ پر سخت تنقید کر رہی ہے لیکن انتخابات سے قبل یہ معاملہ صرف اور صرف سیاسی پوزیشنگ کا ہی ہے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے سے اتنا دور نہیں جائیں گے کہ معاملات 90 کی دہائی کی طرف دوبارہ لوٹ جائیں۔ نوشتہ دیوار یہ بھی ہے کہ انتخابات کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں اکٹھے ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیراہتمام اسلام آباد لٹریری فیسٹیول میں گذشتہ ہفتے بطور مقرر شمولیت کا موقع ملا۔ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے موضوع ہماری نوجوان نسل کے پسندیدہ مضوعات ہیں۔
حوصلہ افزا بات ہے کہ ایف نائن پارک کا امتیاز حسین آڈیٹوریم زیادہ تر طلبہ اور نوجوانوں سے کچھا کچھا بھرا ہوا تھا اور مختلف سیشنز میں ایسے سوالات اور مباحثے ہوئے جس سے اندازہ ہوا کہ آج ہمارے دیکھنے والے صرف تنقید نہیں بلکہ تعمیری تنقید پر یقین رکھتے ہیں۔
واپس کریں