آمنہ مفتی
تاریخ اٹھا کر دیکھیں انسان نے شدید موسمی حالات سے گھبرا کر اور خوراک کی تلاش میں اکثر ہجرت کی۔ پرندوں کو بھی دیکھیے، سرد ملکوں سے گرم ملکوں کو جاتے ہیں اور وہاں کا موسم بدلتے ہی واپس آجاتے ہیں۔کچھ ایسی ہی موسمی ہجرت ہمارے خطے میں بھی ہوتی ہے اور یہ اپنے گھر سے نانی کے گھر کی طرف ہوتی ہے۔ اس کی مدت کم سے کم ایک مہینہ اور زیادہ سے زیادہ تین مہینے ہو سکتی ہے۔
جون کے آتے ہی بکسے بندھنے لگتے ہیں اور اس قسم کے میمز موصول ہونے لگتے ہیں، ’گرمی سے تنگ آکے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد نانی کے گھر چلے گئے وہاں سولر پہ اے سی چلتے ہیں۔‘
مجھ جیسے لوگ جو نہ تو خود کبھی نانی بن سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی نانی کے گھر جا سکتے ہیں ایسے لطیفوں کے خوب مزے لیتے ہیں۔
یہ واقعات نما لطیفے سن کے ہم ایسا ہی لطف لیتے ہیں جیسے ’سلیپ اوورز‘ پہ دس بارہ کزن اکٹھے ہو کر ڈراونی فلم دیکھ کے محظوظ ہوتے ہیں۔
ڈر تو لگتا ہے مگر یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ حادثہ ہمارے ساتھ کبھی نہیں گزر سکتا۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں نانی کے گھر نواسے نواسیوں کا حملہ ہمارے متوسط طبقے کی سمجھداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سکول سے آزاد کیے گئے بچے، آسمان سے برستی آگ، بجلی کے بھیانک بل اور اشیائے صرف کی گرانی۔ سب کی سب ایک دروازہ کھلتے ہی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور وہ دروازہ ہے نانی کا دروازہ۔
نانی کے گھر میں اکثر ایک یا ایک سے زیادہ ممانیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ مہمان بچوں کی ماں بھی کسی کی ممانی ہوتی ہے اور جس گھر سے وہ آئی ہوتی ہے وہ بھی کسی کی نانی کا گھر ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کچھ نانیوں کے ہاں دوسری نانیوں کی نسبت نواسے نواسیاں جون میں آ کر اگست تک کیوں جمے رہتے ہیں۔
اول الذکر نانیوں میں ایسے کیا خواص ہوتے ہیں کہ وہ اس موسمی حملے سے بچی رہتی ہیں؟
زیادہ تر اس کی وجوہات کے ڈانڈے نانا جی کی جوانی سے ملتے ہیں۔ وہ نانا جو خوش حال تھے اور جوانی میں لگ کے کام کرتے رہے اور نانی کے لیے خوب اندوختہ چھوڑ گئے، ان کے ہاں نواسے نواسیوں کا قیام زیادہ اور مسلسل ہوتا ہے۔لاابالی قسم کے نانا، جو نانی کو زمانے اور اپنی اولاد کے رحم و کرم پہ چھوڑ کے سکندر کی طرح اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں وہاں یہ واقعات کم ہی پیش آتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس موسمی ہجرت کا انحصار مامووں کی جیب اور ممانیوں کی برداشت پہ بھی ہوتا ہے۔
کم حیثیت ماموں پہلے ہفتے ہی میں مین سوئچ بند کر کے اے سی میں ایسی فنی خرابی کرتے ہیں کہ خود بھی گرمی میں جھلسیں اور دوسروں کو بھی جھلسائیں۔
ثانی الذکر ماموں خود اپنے بچوں کی نانی کے چکر میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ یا تو مہمانوں کی آمد سے قبل یا ان کے آتے ہی نانی کے گھر جانے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔
نانی کے گھر جانے والے ان انسانوں کے طرز زندگی میں بھی نانی کے گھر جاتے ہی شدید تبدیلی آجاتی ہے۔
اپنے گھر میں کدو کھا لینے والے داماد نانی کے ہاں صرف ’چھوٹا گوشت‘ کھاتے ہیں۔ اپنے گھر میں ایک کمرے میں میٹرس ڈال کے سونے والے نانی کے گھر میں ’پرائیویسی‘ کے خواہاں ہوتے ہیں۔
رات بھر جاگنے اور دن بھر یخ بستہ کمرے میں سونے والی نواسہ نامی یہ مخلوق نانی کے گھر میں پیزے کے علاوہ کسی چیز کو منہ بھی نہیں لگاتی۔
مذاق برطرف، دنیا بھر میں لوگ گرمیوں کی چھٹیاں جانے کہاں کہاں مناتے ہیں لیکن ہم سب کے بچپن کی جو یادیں نانی کے گھر کے آنگن میں رکھے کورے گھڑوں اور موتیے کے پھولوں کی خوشبو میں بسی ہیں، ان کا مقابلہ کوئی مہنگے سے مہنگا سفر بھی نہیں کر سکتا۔
مجھے نانی اماں بس ایک جھلک سی یاد ہیں۔ اونچی چھتوں کے کمروں میں روں روں چلتے پنکھے، لمبی لمبی کھڑکیوں پہ موٹے پردے۔
برامدوں اور برساتی میں ایزل پہ کینوس رکھے پینٹ کرتے میرے خوبصورت ماموں، باورچی خانے میں ہفتے کے دن پکنے والی نوڈلز بناتی ممانی اور شہ نشین پہ چھپ چھپ کے انگریزی کے ناول پڑھتی ماموں زاد بہنیں۔
گرمیاں اب بھی آتی ہیں۔ نہ تو میری نانی رہیں، نہ میرے بچوں کی نانی اور نہ ہی میری کوئی بیٹی ہے کہ میرا گھر نانی کا گھر بن سکے تو اب یہ پہاڑ سی گرمیاں ہوتی ہیں، نانی کے گھر جانے والوں کے لطیفے اور نانی کے گھر کی کچھ یادیں۔
جن کی نانیاں ہیں ان سے التماس ہے نانی کی قدر کریں۔ اس سال ذرا نانی کو بھی کہیں چھٹیوں پہ لے جائیں، نانی کا بھی دل ہوتا ہے، نانی بھی انسان ہوتی ہے۔ بل نانی کے گھر بھی آتا ہے۔ پیارے نواسو! کچھ تو سوچو۔
واپس کریں