آمنہ مفتی
شرق وسطیٰ میں لگی آگ پھر بھڑکنے کو ہے۔ فلسطین کا زخم جو ایک ناسور بن کے عالمی ضمیر پہ مستقل دھبے کی صورت موجود ہے، ایک بار پھر رس رہا ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد کئی نسلوں سے ظلم و زیادتی کے شکار فلسطینی ایک بار پھر سنگین کی نوک میں پروئے جا رہے ہیں۔ فضائی حملے نے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے اور اب پیدل فوج کی پیش قدمی سے پہلے فلسطینی شہری آبادی کو شمالی غزہ سے انخلا کا کہا جا رہا ہے۔ 11 لاکھ لوگ غزہ نامی 40 میل لمبی اور چھ سے 12 میل چوڑی پٹی میں جہاں پہلے ہی 25 لاکھ لوگ آباد ہیں کہاں جا کے بیٹھیں گے؟
اسرائیل کے اس قدم کی حمایت میں یورپی یونین اور امریکہ کے علاوہ بھی ساری دنیا ہے جب کہ فلسطینیوں کے لیے جو ایک دو آوازیں اٹھ بھی رہی ہیں ان کا انجام سب کو معلوم ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اسرائیل، سعودی عرب، مصر اور دیگر عرب ممالک کے ہنگامی دورے پر ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ یہ سارا کشت و خون جو ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار صرف اور صرف حماس ہے اور اب سب خاموشی سے اسرائیل کو غزہ میں آپریشن کرنے دو۔ سعودی عرب اور ایران اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فلسطین پر ایران کا مؤقف اگر سعودی عرب کے کسی نئے مؤقف سے بِھڑ گیا تو ماضی کی ساری سفارت کاری اکارت جائے گی۔
بلنکن کے ہنگامی دورے اور حالیہ سفارت کاری کا نتیجہ جلد ہی میں واضح ہو جائے گا۔ سعودی عرب اپنا مؤقف دے چکا ہے اور حزب اللہ حماس کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے۔
یہ بساط جو 75 سال پہلے بچھائی گئی تھی اب بھی سب کے سامنے ہے۔ بیروت، فلسطین، مشرق وسطی اور موجودہ اسرائیل، یہ علاقے خوبصورت انسانوں، پھل دار درختوں اور ذائقے دار کھانوں کے لیے مشہور تھے۔
75 برس قبل ایک ایسے جرم کا مداوا کرنے کے لیے جو اس خطے کے لوگوں نے کیا بھی نہ تھا ان سے ان کے انگور کے باغ چھین لیے گئے اور ایک ایسی بے دری ان کے مقدر میں لکھ دی گئی جس کا کوئی انجام نظر نہیں آتا۔
نکبہ، یعنی مئی 1948 کی یاد میں فلسطینی ان گھروں کی چابیاں لے کر نکلتے ہیں جن کی طرف وہ کبھی پلٹ نہیں سکتے۔ یہ دکھ شاید وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جنہوں نے ایسی چابیاں نہ دیکھی ہوں۔ میں نے ایسی چابیاں دیکھی ہوئی ہیں اور ان آنسوؤں کو پونچھا ہوا ہے جو ان آنگنوں کی یاد میں بہتے تھے جن میں نیم کی چھاؤں کسی طور بھولتی ہی نہیں۔
حزب اللہ اور حماس کی مذمت اور سرکوبی کی آڑ میں نہتے شہریوں کے ساتھ جو کچھ ہو گا ہم اسے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
غدر کی کہانیاں ہوں یا نکبہ کے نوحے، اجڑنے والوں کے دکھ ایک سے ہوتے ہیں۔ آنگن میں لگے زیتون کے پیڑ کی یاد بھی کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی اور وہ تالے جنہیں بند کرنے والوں کو انہیں کھولنا نصیب نہیں ہوا، ان تالوں کا قصہ بھی کبھی بھولا نہیں جا سکتا۔
ہمارے پاس الفاظ ہیں، ہم ہر صورت جارحیت کی، دفاع کی آڑ میں کی گئی پیش قدمی کی اور ظلم کی مذمت کرتے رہیں گے، رونے والوں کے ساتھ روتے رہیں گے اور ہر اس شخص کے ساتھ جسے جبر کے تحت اپنا گھر چھوڑنا پڑ رہا ہے، دہائی دیتے رہیں گے۔ بموں، بندوقوں، بکتر بند گاڑیوں، جنگی جہازوں والے ایک نئی جنگ کے لیے پرانی بساط کے مہروں کو ادھر ادھر کرتے رہیں گے۔
زمین پر ایک اور دن ڈوب جائے گا جس کے بعد شمالی غزہ میں آگ اور خون سے ایک نئی جنگ کا پیش لفظ لکھا جائے گا۔
مشرق وسطی میں امن قائم ہونا کس کے مفاد میں ہے اور جنگ میں کس کا فائدہ ہے؟ یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اس خطے میں بار بار بھڑکنے والی آگ کو ٹھنڈا نہ ہونے دینا کس کے قومی مفاد میں ہے؟
اس دہرائی ہوئی کہانی میں ہماری دلچسپی صرف وہ انسان ہیں جنہیں وسائل کے بھوکے روندتے ہوئے گزر رہے ہیں۔
غزہ کی اس زمینی جنگ کی تیاری اسرائیل مدت سے کر رہا تھا۔ جنگ بھی ہو گی، ہجرت در ہجرت پہ مجبور کر دیے جانے والوں کے ٹھکانوں کو پھر سے برباد بھی کر دیا جائے گا۔
ممکن ہے حماس کا نام و نشان بھی مٹا دیا جائے لیکن کیا تاریخ کے صفحوں پہ پھیلے نہتے شہریوں کے خون کو دھویا جا سکے گا؟ خون کے یہ دھبے آپ کا میرا مسئلہ ہو سکتے ہیں اس لیے اس دکھ میں آئیے ہم ہی روتے ہیں اور رونے سے کچھ ہو سکتا ہے تو روتے ہی رہتے ہیں۔
واپس کریں