آمنہ مفتی
جلاوطنی بری چیز ہے۔ ہمیں اس کا تجربہ تو نہیں لیکن احساس ضرور ہے۔ اپنی مٹی، اپنے گھر اور اپنے لوگوں سے دوری۔ امیر ہو یا مفلس، غریب الدیار ہونا بڑی مصیبت ہے۔وطن عزیز کی ننھی منی سیاسی تاریخ جبری اور خود ساختہ جلاوطنی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ کئی ایسے جلاوطن بھی گزرے، جنہیں دفنانے کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔میاں نواز شریف کی داستان بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں ان کے اپوزیشن کے کردار پہ کڑی تنقید کی ہے۔ کسی بھی رومانٹک انقلابی کی طرح میری بھی یہی خواہش ہوتی تھی کہ میرا لیڈر نظریے کی حرمت کے لیے تختے پہ جھول جائے یا کسی کال کوٹھڑی میں سڑتا رہے۔ ہم اور ہمارے خواب!
میاں صاحب کے سیاسی سفر میں جب حالات قابو سے باہر ہوئے تو وہ جلاوطنی اختیار کر گئے۔ حالات تبدیل ہوئے تو واپس آئے اور کہانی جہاں سے چھوڑی تھی، وہیں سے شروع کر دی۔ کہانی اچھی تھی یا بری یہ ہر شخص اپنی نظر سے دیکھتا ہے لیکن کہانی کو بہرحال چلنا ہوتا ہے۔
کونوں کھدروں سے ابھرتی سرگوشیوں، قوانین کے شکنجوں میں نرمی، ہواؤں کے بدلتے رخ اور اسٹیبلشمنٹ کے بدلے رنگوں سے صاف اندازہ ہو رہا ہے کہ ’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔‘
میاں نواز شریف صاحب کی واپسی متوقع ہے۔ نظر تو یہی آ رہا ہے کہ یہ واپسی عید کے بعد ہو گی۔ سیاست کے میدان میں پھر سے انتخابات کی بساط بچھائی جائے گی، پرانے مہرے براسو سے پالش کر کے پھر سے پٹی ہوئی چالیں چلی جائیں گی۔پی ٹی آئی کے لیے ہماری ایک قنوطی سہیلی نے پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ چھ سیٹوں کی پارٹی رہ جائے گی۔ افسوس، خواب اور تعبیر کے درمیان کوئی پھر سے ڈنڈی مار گیا۔
میاں صاحب اگر واپس آ رہے ہیں تو خوش آمدید۔ ان کی غیر موجودگی میں مریم صاحبہ جس طرح فعال رہیں وہ یقیناً قابل تحسین ہے۔ پاکستانی سیاست کے اس ’میم زدہ‘ ماحول میں کسی خاتون کا جم کے کھڑے رہنا بڑی بات ہے۔وہی چہرے، اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر ہوں گے۔ روتے پیٹتے عوام، صبح کو شام کرنے کی خشت کوبی میں مصروف رہیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ نیا فارمولا لائے گی۔ ہائبرڈ نظام، آرگینک نظام، قومی حکومت، تو زندہ باد میں مردہ باد، ہم سب پائندہ باد۔
میاں صاحب کا نظریہ ہمارا بھی نعرہ ہے، ’ووٹ کو عزت دو۔‘ ہم اپنے انگوٹھے کو دیکھتے ہیں، ہماری شناخت، ہماری طاقت، ہمارا ووٹ، ہماری سوچ، اس ملک کے فیصلوں میں ہمارا فیصلہ شامل ہونے کا احساس، یہ سب بڑا ڈرامائی، فلمی اور انقلابی لگتا ہے۔
یہ اتنا مشکل بھی نہیں، صرف ڈٹے رہنا ہو گا۔ اب سیاست دانوں کو ایک ’پیج‘ پہ اکٹھا ہونا ہو گا۔ میاں صاحب کی واپسی اور نئے سیاسی منظر نامے میں زیادہ خوشی اس بات کی ہو گی کہ ماضی کی طرح اپوزیشن کو جلا وطنی پہ مجبور نہ کیا جائے۔
وہ سیاسی پارٹیاں جن کی قیادت پریس کانفرنس کر کے اپنے کارکنوں کو تنہا چھوڑ جائے یا جبری طور پہ ملک بدر کر دی جائے، لامحالہ نام نہاد اتحادوں میں شامل ہوتی ہیں۔یہ اتحاد کبھی بھی مضبوط حکومت نہیں بنا سکتے، نتیجہ وہی ہوتا ہے جو اتنے برس سے ہم دیکھتے آ رہے ہیں۔ منتظر ہیں کہ میاں صاحب کی متوقع واپسی کے بعد سیاسی حبس اور پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ رکے گا اور جمہوریت کی یہ گاڑی جو ہائبرڈ جمہوریت کے اسقاط کے بعد معاشی بد حالی کے گڑھے میں پڑی ہے، پٹڑی پہ چڑھ جائے گی۔
واپس کریں