آمنہ مفتی
بخدمت جناب عالی، گرمی تو ہر برس پڑتی ہے اس برس بھی پڑی، بارش اپنے وقت پہ برسی، چھٹیاں بھی اسی طرح ہوئیں اور گھر کے افراد بھی اتنے ہی تھے مگر بجلی کا بل وہ نہ تھا۔ہماری دُہائی سن کے آپ سمجھیں گے کہ ہم ایک مخصوص سیاسی جماعت سے کچھ وابستگی رکھتے ہیں۔ قطعا نہیں ہم اس خاص سیاسی جماعت سے کیا کسی عام سیاسی جماعت سے بھی کوئی وابستگی نہیں رکھتے۔ہماری وابستگی صرف اور صرف اپنی جیب سے ہے، جس کا استر کب سے بوسیدہ ہو کر پھٹ چکا اور اس میں کچھ بھی نہیں ٹکتا۔اس جیب میں اتنا بھاری بھرکم بل بھرنے کے پیسے نہ کل تھے نہ آج ہیں اور نہ ہی کل ہوں گے۔
چونکہ میں ایک عام پاکستانی ہوں، اس لیے ہر مسئلے میں پہلے اپنی غلطی تلاش کرتی ہوں۔ سوچ بچار کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مجھے بجلی کا خرچ کم کرنا چاہیے۔
رات کو دو گھنٹے جو اے سی چلا کے کمرے میں حبس سا کر لیا جاتا ہے اسے چلانے کی بجائے کھڑکیاں کھول کر تازہ ہوا کے مزے لینے چاہیں۔
پنکھا بند رکھا جائے، بلکہ اتروا کے اس کی جگہ چھت گیر، ڈوری کھینچنے والا پنکھا لگایا جائے۔ اس سے ثقافت بھی بحال ہو گی اور جم جا کے جو ٹانگوں کی ایکسرسائز کی جاتی ہے وہ بھی یہیں ہو جائے گی۔
اس خیال کے بعد دماغ کی رو مزید تیز چلی اور ایک کے بعد ایک طریقہ ذہن کے پردے پہ جگمگانے لگا۔ گیٹ پہ جلنے والے ہنڈے فی الفور بند کر کے ان کی جگہ انرجی سیور لگائے جائیں۔
واشنگ مشین کی جگہ کپڑے ہاتھ پہ دھوئے جائیں، مائیکروویو کا استعمال ترک کر دیا جائے، ٹی وی دیکھنے کی بجائے اردو بازار سے سیکنڈ ہینڈ کتابیں لا کر پڑھی جائیں۔
فلمیں ولمیں دیکھنا یوں بھی ایک لغو کام ہے۔ استری شدہ کپڑے پہن کے کیا کرنا؟ انسان کو خود ایک برانڈ ہونا چاہیے چرمر کپڑے پہنے دیکھ کر لوگ یہ ہی سمجھیں گے کہ کوئی نیا فیشن ہے۔
گرائنڈر وغیرہ کی جگہ سل بٹہ زندہ باد، آخر لوگ بجلی کی ایجاد سے پہلے بھی تو زندہ رہتے تھے اور کیا مشکل کھانے از قسم ، کوفتے، کباب، نہاریاں وغیرہ ان ہی پتھروں کی سلوں پہ مصالحہ پیس کر پکاتے تھے۔
نوڈلز ابال کے کھانے والوں کو گرائنڈر، فوڈ فیکٹری کی کیا ضرورت؟دن کی روشنی کو استعمال کر کے بلب بھی استعمال نہ کیے جائیں اور اگر شام پڑے کوئی آفت ایسی ٹوٹے کہ روشنی کی ضرورت ہو تو موم بتی جلا لی جائے۔ دیکھنے میں بھی کیا رومانٹک لگتی ہے اور بجلی کا خرچ زیرو۔
فریج اور ڈیپ فریزر بے حد بے کار ایجادات ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے بالکل بجا فرمایا کہ فریج لینے کا صرف ایک فائدہ ہے کہ جو بدمزہ کھانا پہلے ایک وقت پہ کھایا جاتا تھا اب وہی دو وقت پہ کھایا جائے گا۔
سوچیے ذرا، مٹکے کا ٹھنڈا پانی، تازہ سالن، توے سے اتری تازہ روٹی، موم بتی کی روشنی میں ہاتھ کا پنکھا جھل جھل کے کھاتے ہوئے کس قدر لطف آیا کرے گا۔
زندگی تو یہ ہی ہے، باقی تعیشات نے انسان کو انسان سے دور کر دیا بلکہ انسان کو خود سے دور کر دیا۔
یہ سارے انتظامات کر کے سکون کا سانس لیا، خود کو اپنی سلیقہ مندی پہ خوب داد دی اور دیر تک یہ سوچ کے رنجیدہ ہوتی رہی کہ ایسی سلیقہ شعار بہو کی قدر نہ کی ورنہ میں ان سب کی تقدیر بدل دیتی اور وہ آج میری طرح چر مر کپڑے پہن کر سل بٹے پہ مصالحہ پیستے، تاروں کی چھاؤں میں سوتے اور فجر کے تارے کے ساتھ جاگتے، نہ بل زیادہ آتا نہ گھر میں جھگڑا ہوتا۔سسرال تو ہوتے ہی ناقدرے ہیں، ایسے سلیقہ مند شخص کو تو وزارت توانائی کی عبوری وزارت دینی چاہیے تھی۔ کیونکہ نہ تو یہ وزارت بجلی اور توانائی کا بحران دور کر سکتی ہے نہ ہی صارفین کو مناسب قیمت پہ بجلی فراہم کر سکتی ہے، کم سے کم بجلی بچانے کے مشورے تو دیکھ سکتی ہے؟
سوچ کی پرواز رکنے ہی میں نہیں آرہی اور اپنی ذہانت پہ رشک آ رہا ہے۔ رہ رہ کے یہ خیال ذہن میں آرہا ہے کہ اس ملک کی تقدیر اب صرف میرے ہاتھوں میں ہے۔
مجھ جیسے وزرا اور مشیر، یقیناً نہ صرف اس ملک کی ڈوبتی نیا پار لگا سکتے ہیں بلکہ عالم اسلام کے اس سفینے کو بھی ساحل مراد تک پہنچا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
صورت حال یوں ہے کہ ارباب حل و عقد میرے تھوڑے لکھے کو بہت جانیں اور اس تحریر کو نوکری کی درخواست سمجھتے ہوئے فٹا فٹ وزارت و مشاورت کی کرسی سے نوازیں۔
ایسا نہ ہو کہ میرا عظیم دماغ ناقدری کے باعث بجلی کے بحران اور معیشت کی بحالی کے ایسے زریں حل ڈھونڈنے سے منکر ہو جائے اور امید کی یہ آخری شمع بھی بجھ جائے۔
پس نوشت:اس قسم کی بے سر پیر اور بچگانہ تحریریں انسان اسی وقت لکھتا ہے جب اسے واقعی کسی وزارت کی امید ہوتی ہے۔
یقین نہ ہو تو عبوری حکومت پہ نظر ڈالیے، پھر بھی یقین نہ ہو تو اس سے پچھلی، اس سے پچھلی اور اس سے بھی پچھلی حکومتوں پہ نظر ڈالیے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر۔
واپس کریں