آمنہ مفتی
یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے کہ ٹی وی پہ ٹاک شو کے دوران اچانک ایک مہمان دوسرے مہمان پہ پل پڑے۔ روز نہ سہی سال میں ایک دو بار تو ایسا ہو ہی جاتا ہے۔جب ایسا ہوتا ہے تو پروگرام کا میزبان بلیوں اچھلتے دل کو سنبھالتے، نیم دلی سے ناں، ناں، ہائیں، ہائیں کرتا دوڑتا ہے، گو اس کی بدن بولی یہی کہہ رہی ہوتی ہے کہ بھائی صاحب یا بہن جی! دو تین مکے، تھپڑ، گھونسے، دھموکے اور لگایے، ایک تو ہماری ریٹنگ آئے گی دوسرے یوں ہی دیکھنے کو اچھا تماشا مل جائے گا۔
تماشا دیکھنے کی تمنا تو انسان کے اندر ہمیشہ سے موجود ہے اور اس سے اچھا تماشا کیا ہو گا کہ دو انسان ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں۔ یہ شوق بڑھتے بڑھتے ’گلیڈی ایٹرز‘ کے تماشے تک جا پہنچا۔
کشتی کا اکھاڑہ ہو، ریسلنگ کا رنگ ہو، باکسنگ یا کسی بھی طرح کے مارشل آرٹس ہوں، انسان کے انسان سے بھڑنے کا نظارہ خوب دلچسپی فراہم کرتا ہے۔ دل کے اندر کہیں یہ اطمینان رہتا ہے کہ گو ہم بھی اسی قابل ہیں لیکن فی الحال یہ پٹنے والا ہم نہیں کوئی اور ہے۔
صرف یہ ہی نہیں مقابلہ بازی، انسان کا انسان سے ہر میدان میں بھڑنا انسانی سرشت ہے۔ ان ہی میں سے ایک میدان، مباحثہ بھی ہے۔ مباحثے کے لیے آنے والے لوگ اپنے دلائل سے خود کو منوانے آتے ہیں اور یہ علم، پرائمری سطح پہ ہی سکھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹاک شو میں آنے والے یہ لوگ ایک دوسرے کو مارنے اور گالیاں دینے پہ کیوں اتر آتے ہیں؟کیا ان کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں یا یہ سب نورا کشتی ہوتی ہے؟
جواب یہ ہے کہ یہ نورا کشتی بھی ہوتی ہے اور عدم برداشت کی وجہ سے بھی یہ ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں۔ ذاتیات پہ اترنے والے، بھری محفل میں کسی کو طمانچہ رسید کرنے والے، ہر بات کی ابتدا اور اختتام گالی پہ کرنے والے، یہ لوگ وہی ہیں جو آپ کو ہر گلی کوچے میں مل جاتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے گھر سے لے کے دفتر، بازار، سکول، کالج، نجی محفل، ہر جگہ گالم گلوچ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ بچپن ہی سے انہیں بڑے ہونے کا شوق اسی لیے ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر گالیاں دیں گے۔
پھر جب ان ہی لوگوں میں سے کوئی ہمارے ملک میں سالہا سال سے جاری ’نیچرل سلیکشن‘ کے باعث کسی مقام پہ پہنچا دیا جاتا ہے اور اس مقام سے میڈیا کے سامنے لایا جاتا ہے تو وہ اپنی بچپن کی خواہش پوری کرتا ہے۔
دوسری جانب بھی ویسا ہی پہلوان ہوتا ہے اور انہیں اس فورم پہ بلانے والا بھی کم و بیش ان ہی عادات کا مالک ہوتا ہے یوں اس مکمل آویزش سے گالم گلوچ اور مارپیٹ کے وہ کلپس نکلتے ہیں جو آشوب چشم کی طرح وائرل ہو جاتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہم جو ان ٹوٹوں کو دیکھ کر توبہ کرتے ہیں موقع ملنے پہ ہمارا رویہ بھی ان سے چنداں مختلف نہیں ہوتا۔ تو عزیز قارئین! ٹیلی ویژن نام کے اس ایڈیٹ باکس میں جو نظر آرہا ہے وہ ہمارا عکس ہی ہوتا ہے۔ عکس کو اس وقت تک نہیں بدلا جاسکتا جب تک اصل نہ تبدیل ہو۔
بچے پہلا سگریٹ بعد میں پیتے ہیں، ماں بہن کی گالی دینا اور ایک دوسرے کا گریبان کھینچنا پہلے سیکھ لیتے ہیں۔ گھر میں بڑوں کے سامنے یا خواتین کے سامنے زبان روک بھی لی جاتی ہے تو موقع ملتے ہی گردان شروع ہو جاتی ہے۔
یہ مرض اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اچھے بھلے سکولوں کالجوں میں تفریح کے گھنٹوں یا فارغ اوقات میں گفتگو کی بھنبھناہٹ پہ غور کیا جائے تو سوائے گالیوں کے کچھ پلے نہیں پڑتا۔
گالی اور مار پیٹ کو اپنا کلچر نہ تو تسلیم کیجیے نہ اس کی کسی بھی طرح ترویج کیجیے۔ ہوتے ہوتے یہ سچ مچ ہمارا کلچر بن جائے گا اور تب ریٹنگز لانے کے لیے کیا کیا کرنا پڑے گا، خود ہی سوچ لیجیے۔ تب بدتہذیبی کے اس بھوت کو آپ چاہ کر بھی زنجیر نہیں ڈال سکیں گے۔
واپس کریں