آمنہ مفتی
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) ملک کی قومی ایئر لائن جس کا سلوگن Great People to Fly with جس وقت جیکو لین کینیڈی نے دہرایا تھا تو شاید اس ادارے کو قومیائے ہوئے صرف سات برس ہی گزرے تھے، آج 62 برس بعد یہ نجی شعبے کو فروخت کی جا رہی ہے اور یہ عمل جون تک مکمل ہو جائے گا۔پی آئی اے کی نجکاری کی موٹی سی وجہ بتائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ادارہ مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔ 1987 سے تاحال سوائے 2006 کے مالی سال کے، یہ ادارہ مسلسل خسارے میں رہا۔قومی ایئرلائن ہونے کی وجہ سے یہ سب خسارہ حکومت کو برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ پی آئی اے کے 7200 ملازمین، پرانے ہوتے ہوئے جہاز، 2004 سے مسلسل گرتی ہوئی مالی اور پیشہ ورانہ ساکھ، پچھلے دو سالوں میں پہلے 88 ارب اور پھر اگلے چھ ماہ میں 60 ارب روپے کا خسارہ، وہ چیدہ چیدہ مسائل ہیں جن کے باعث پی آئی اے کی نجکاری ناگزیر سمجھی جا رہی ہے۔
یہ سوال کئی بار اٹھا کہ اس سفید ہاتھی کو بیچ دیا جائے مگر ہر بار کسی نہ کسی طرف سے مخالفت ہوتی رہی اور یہ ہاتھی ہمارے دروازے پہ جھولتا رہا۔
بات یہ ہے کہ جب مالی حالات اچھے ہوں تو سفید ہاتھی پالنا امارت کی نشانی سمجھی جاتی ہے، لیکن ایسا گھر جہاں کنبے کا سربراہ اسی لیے صبح جاگتا ہے کہ آج کس مخیر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹا کے صدا لگائی جائے، اعلیٰ! دے نوالہ، وہاں یہ اللے تللے نہیں چلتے۔
پی آئی اے کو کس نے کھایا؟ دنیا کی بہترین ہوائی کمپنیوں میں سے ایک یہ کمپنی اس انجام کو کیسے پہنچی، سب کو معلوم ہے۔ بربادی کے اس فسانے میں اپنے حصے کی ایک ایک سطر ہر ایک نے لکھی۔
جہاز اڑتے رہیں گے، پرانے ملازمین بھی تین سال تک یہیں رہیں گے، مسافروں کے لیے شاید زیادہ بہتر حالات ہو جائیں اور ظاہر ہے فی زمانہ سلیقے سے چلائی گئی ہوائی کمپنی نئے مالکان کو منافع بھی کما کر دے گی۔
ہو گا صرف اتنا کہ حکومت پاکستان اس ادارے کی ملکیت سے فارغ ہو جائے گی۔ اس سے مجھے یا آپ کو کیا نقصان ہو گا؟ شاید کچھ برس پہلے ہمیں یہ لگتا کہ چوں کہ پاکستان ہم ہیں، اس لیے ہمارا کاروبار بیچ دیا گیا۔ لیکن کئی برسوں کی خشت کوبی کے بعد بھی پاؤں اور چادر کا تناسب پورا نہ کر پانے والے شاید اس خبر کو غور سے پڑھیں گے بھی نہیں۔
نجکاری بری چیز ہے یا چلتی صنعتوں اور اداروں کو قومیا کے وہاں نا اہل اور نکمے لوگوں کی فوج اقربا پروری اور سیاسی و دیگر مفادات کے لیے بھرتی کر کے قومی خزانے پہ بوجھ ڈالنا زیادہ برا فعل ہے؟
بہت سے سوالوں کے جواب سامنے ہی ہوتے ہیں مگر ہم جواب دینے سے کتراتے ہیں۔ وہی ادارے، انہی ملازمین کے ساتھ نجی شعبے میں ترقی کر جاتے ہیں اور سرکاری شعبے میں حکومت کے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن جاتے ہیں۔
لیکن پی آئی اے کے ابتدائی دنوں میں اس کے الٹ ہوا تھا۔ سرکاری تحویل میں آنے کے بعد پی آئی اے ایک بہترین ایئر لائن بن کے ابھری تھی۔ کیا وہ دور مختلف تھا یا وہ لوگ ہی کچھ اور تھے؟
یہ ایک مالیاتی نہیں، سماجی پہیلی ہے۔ بھٹو دور میں قومیائے گئے اداروں کا کیا حال ہوا اور نجکاری کے بعد ادارے کیسے چلے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس مالیاتی بحران کو ہماری روزمرہ میں ’روٹیاں لگنا‘ کہا جاتا ہے۔
جن اداروں کے لوگوں کی پکی روٹیاں لگ جاتی ہیں وہ محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور جو محنت کرتے بھی ہیں وہ اس ماحول میں نہ تو کچھ مثبت کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس ماحول کو تنہا بدل سکتے ہیں۔ پھر یا تو وہ ان اداروں سے خود ہی چلے جاتے ہیں اور یا پھر روٹی گرد بن کے باقی زندگی یہیں گزار دیتے ہیں۔پی آئی اے کے بعد ریڈیو، ٹی وی، ریلوے اور کئی اداروں کا نمبر لگے گا۔عوام کو تو جو نقصان ہو گا، اس کا تخمینہ وقت لگائے گا لیکن روٹی گردوں کے کئی گروہ بے آسرا ہو جائیں گے۔ انہیں یا تو کارکردگی دکھانی ہو گی یا پھر اسی جگہ پہنچنا ہو گا جہاں کے وہ اہل ہیں۔
امید ہمیشہ اچھی رکھنی چاہیے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کسی گھر کے برتن بھانڈے بکنے لگیں تو بربادی نکڑ پہ کھڑی جھانک رہی ہوتی ہے۔ گھر کی پہلی چیز یہ ہی سوچ کر بیچی جاتی ہے کہ حالات ٹھیک ہوتے ہی دوبارہ خرید لی جائے گی اور یوں بھی یہ تو کونے میں پڑی کھاد ہی ہو رہی تھی۔
بکنے کا یہ سلسلہ چوٹی سے کھسکتے برف کے گولے کی طرح آخر ایوالانچ بن کے رہتا ہے۔ سنبھلنا شاید اتنا مشکل نہ تھا مگر جب پھسلنے کی ٹھان لی جائے تو رپٹے بغیر چارہ نہیں رہتا۔
وہی لوگ، وہی ماحول، وہی سماجی اور سیاسی و دیگر حالات، نجکاری کے عمل میں بھی کارفرما ہوں گے تو سمجھ لیجیے کہ دادی کے وقتوں کا یہ چاندی کا تھال بھی جب بک بکا کہ پیسے ہاتھ آئیں گے تو ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل پوری ہو گی۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔
واپس کریں