آمنہ مفتی
ہمارے عمر شریف صاحب مرحوم بلا کے جملے باز واقع ہوئے تھے۔ ایسی صورت حال میں سے بھی مزاح تلاش کر لیتے تھے جہاں کسی کے ہونٹوں پہ پتلی سی مسکراہٹ بھی نہ ابھر سکے۔ایک شو میں فرمانے لگے، ’فلاں صاحب ایسے پیدا ہوئے تھے کہ ان کی امی چھت پہ گڈی اڑا رہی تھیں کہ کسی نے آ کے کہا، بہن مبارک ہو تمہارے ہاں بیٹا ہوا ہے۔ سننے والے نے کہا یہ کیسے ممکن ہے؟ برجستہ بولے، سائنس کے کرشمے!‘
سائنس کے ایسے بہت سے کرشمے ہم وطن عزیز کی سیاست میں آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ کرشمے نہ صرف ہمیں حیران کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو بےطرح پریشان بھی کرتے ہیں۔ان کرشموں میں سے ایک بڑا کرشمہ، ٹیسٹ ٹیوب اور آئی وی ایف یا سیروگیسی سے پیدا کی گئی سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں اسی طرح اچانک پیدا ہوتی ہیں جیسے فلم ’ٹرمینیٹر‘ میں ایک پتھر کی اوٹ سے پلے پلائے آرنلڈ شیوازینگر برآمد ہو جاتے ہیں۔
سیاسی پارٹی کا وجود میں آنا کسی معاشرے کے باسیوں کا ایک بہت فطری عمل ہوتا ہے۔ معاشرتی اصلاح کی، کسی مشترکہ مطالبے کی، کسی مقصد کی یا کسی نظریے کی بنیاد پہ کھڑی یہ سیاسی پارٹیاں زمین کی کوکھ سے پھوٹتی ہیں اور ان کے خدوخال اپنے معاشرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔لیکن سائنس کے کرشمے دیکھیے کہ ہمارے ہاں اچانک بغیر کسی سوچ، نظریے یا فطری تال میل کے ایک سیاسی پارٹی پیدا ہوتی ہے۔ پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کے ہاں پارٹی ہونے والی ہے۔ وہ بھی مزے سے چھت پہ گڈی اڑا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک انہیں خبر ملتی ہے، ’مبارک ہو، پارٹی ہوئی ہے۔‘
آپ بالکل درست سمجھ رہے ہیں۔ میں اسی ثقیل سے نام والی سیروگیسی سے پیدا ہونے والی پارٹی کا ذکر کر رہی ہوں جو ابھی حال ہی میں پیدا ہوئی ہے۔ نہ صرف یہ پارٹی اچانک اور غیر فطری انداز میں پیدا ہوئی ہے بلکہ کسی سائنس فکشن فلم کے کردار کی طرح یہ اپنی نشو و نما کی منزلوں سے گزرے بغیر اچانک شباب میں داخل ہو جائے گی۔
مرحوم و مغفور تحریک انصاف بھی ایک روز اچانک کوئی بوسٹر ڈوز کھا کے اس قدر توانا ہو گئی تھی کہ سونامی لے آئی تھی۔ پھر ہم نے اسے بڑھکیں مارتے، عوام کی مثبت توانائی کو فالتو باتوں پہ ضائع کراتے، عوام کو عملی اقدامات کی بجائے سول نافرمانی اور کٹے، مرغی پال کے امیر ہونے کے نسخے بتاتے اور آخر کار پرزہ پرزہ ہوتے دیکھا۔
بقول پروین شاکر ؎
ہوا کے لائے ہوئے بیج پھر ہوا میں گئے
کھلے تھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا
بغیر زردانے کی ہائبرڈ پارٹیاں، ہائبرڈ نظام حکومت بنتے رہے ہیں، بنتے رہیں گے۔ ہمارے بڑے کہتے تھے کہ انگریز نے ابھی پانچ سو سال اس خطے کو آزاد نہیں کرنا تھا، یہ تو دوسری عالمی جنگ میں ان کی کمر ٹوٹی تو یہ یہاں سے بھاگے۔بھاگنے والے جوتے چھوڑنے کی بجائے اپنا نظام چھوڑ کر بھاگے۔ وہ نظام جو اب تک چلے جا رہا ہے، بےڈھنگے پن سے، چولیں ہلی مشین کی طرح چرخ چوں چرخ چوں۔ اس کہنہ نظام کے کھانچے سے مضحکہ خیز پارٹیاں ایک کے بعد ایک برآمد ہوتی ہیں۔ ہم بھی دیکھ کے ہنستے ہیں، آپ بھی ہنستے رہیے۔
معین شاداب صاحب کا ایک شعر ہے ؎
چہرے کی ساری رونق اڑ جائے گی
ہنستے رہیے جب تک عشق نہیں ہوتا
سیاسی پارٹی عشق ہوتی ہے، ایک جذبہ اور جنون۔ اسے دفتروں میں بیٹھ کے کاغذوں پہ نہیں بنایا جاتا۔ اس کی ابتدا عوام کے دلوں میں ہوتی ہے، پریس کانفرنسوں میں نہیں۔ اس کی بنیاد عوامی طاقت ہوتی ہے، درجنوں اور سیروں کے حساب سے اٹھائے ہوئے ’الیکٹ ایبلز‘ نہیں ہوتے۔
مگر ابھی ہمارے عہد کا جبر یہ ہی ہے کہ ہمارے ہاں فقط ٹیسٹ ٹیوب اور ہائبرڈ سیاست اور جمہوریت چل سکتی ہے۔ ہماری فکر بانجھ کر دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں کسی ذہن میں کسی نظریے کا بیج پھوٹتا بھی ہے تو یا تو اس ذہن کو وہیں جوتے کے نیچے کچل کے ختم کر دیا جاتا ہے یا اس ذہن کا ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ کر دیا جاتا ہے۔
اس زرخیز خطے کے نصیب میں فی الحال بنجر کی گئی زمینیں، بانجھ کیے گئے ذہن، کاٹ دی گئی زبانیں، سلائیاں پھرے کور چشم لوگ اور سلیوٹ کو اُٹھے ہاتھ ہی رہ گئے ہیں۔تو جب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے، چہرے کی رونق بچائیے، ہنستے رہیے کیونکہ مبارک ہو آپ کے ہاں نئی ’پارٹی‘ پیدا ہوئی ہے!
واپس کریں