دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اگر انتخابات نہ ہوئے تو۔۔۔
آمنہ مفتی
آمنہ مفتی
ہمارے گھر میں ایک کتاب ہوا کرتی تھی، ’اگر مجھے قتل کیا گیا۔۔۔‘ جب تک یہ کتاب پڑھی نہیں تھی تو اس کے متن کے بارے میں قیاس کرتی رہتی تھی۔لگتا یہی تھا کہ عمران سیریز کی طرح کوئی جاسوسی ناول ہو گا اور یہ کسی سپیشل ایجنٹ کی کہانی ہو گی۔ اس وقت تک صاحب کتاب کو پھانسی ہو چکی تھی اور ان کی پارٹی کو ہر طرح کے حربے استعمال کر کے تتر بتر بھی کر دیا گیا تھا۔نصف صدی کے قریب وقت گزر چکا، اس دوران ایک سابق وزیراعظم کو قتل کیا گیا، ایک دوسرے صاحب بال بال مقتول ہو نے سے بچے پھر رہے ہیں اور تیسرے کال کوٹھڑی میں بیٹھے اپنی کتاب کا مسودہ سوچ رہے ہیں۔
اس دوران ہوا یہ کہ ہم جہاں کھڑے تھے وہاں سے بھی بہت نیچے کھسک گئے۔ ہر شعبہ زندگی میں گرتے گرتے صفر کے دوسری طرف پہنچ گئے۔ تاریخ کا نازک موڑ آج بھی ہماری راہ میں حائل ہے اور ہم ایک بے یقینی کی کیفیت میں کھڑے ہیں۔ساری بات شروع ہوئی سینیٹر صاحب کی درخواست سے کہ صاحب انتخابات ذرا کچھ مہینے آگے کھسکا لیجیے۔ بظاہر یہ ایک بے ضرر سی خواہش ہے، کچھ وجوہات ہیں اور بڑی معصومیت سے، فقط دو چارماہ کی بات ہے، کہہ کے یہ فرمائش نما قرارداد پیش کر دی گئی۔
سننے والے اسی معصومیت کو دیکھ کے لرز گئے۔ بات یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ ایک گمنام فرد، معصوم خواہش اور سادہ سی فرمائش، چند ماہ کی تاخیر، چند روز کا تعطل اور تاریخ کے دھارے کا رخ ایسا بدلتا ہے کہ ہم برسوں کے لیے ایسے چکر میں پھنس جاتے ہیں کہ نسلیں خراج ادا کرتی ہیں۔
یہ قرارداد 97 ممبرز کے سینیٹ میں اس وقت منظور ہوئی جب فقط 14 لوگ موجود تھے اور ایک ممبر کی مخالفت کے باوجود فٹافٹ منظور ہو گئی۔ دیکھنے والے اس اتفاق پہ بھی غش کھا گئے۔
بھٹو صاحب کی کتاب کا سرورق ہی اصل مسودہ تھا ’اگر مجھے قتل کیا گیا۔۔۔‘ عوامی لیڈر جانتا ہے کہ جب ایسے قدم اٹھائے جاتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ قتل کرنے والا اصل میں خودکشی کرتا ہے مگر یہ شعور اسے نہیں ہوتا۔
میری ناقص معلومات کے مطابق قیام پاکستان سے آج تک ہونے والے 11 انتخابات میں سے تین، 1985، 1997 اور 2008 کے انتخابات اسی فروری کے ظالم مہینے میں ہوئے تھے۔ موسم تب بھی ایسا ہی سرد ہوتا تھا۔ہمارے ملک میں جیسی جمہوریت چل رہی ہے سب ہی جانتے ہیں، لیکن بہرحال جمہوریت ہے۔ عوام کو ایک تسلی تو ہے کہ ہماری رائے کا اتنا خوف ضرور ہے کہ نام کے ہی سہی، جمہوری ادارے کام کر رہے ہیں۔
رہی بات سکیورٹی صورت حال کی تو وہ اسلام آباد ہی کے ایک ادارے کے مطابق پچھلے برس سے 60 فی صد زیادہ بری ہے اور سال 2023 میں 600 سے زائد مسلح حملے ریکارڈ کیے گئے۔ اگر حالات اس نہج پہ جا رہے ہیں تو تاخیر کی صورت میں بھی راوی چین تو لکھنے سے رہا۔
جو کام انتخابات کو آگے کر کے نگران سیٹ اپ سے کرانے ہیں، وہی کام انتخابات کے ذریعے آنے والے بھی کر ہی دیں گے، گھبراہٹ کس بات کی ہے؟
نومبر میں ہونے والے انتخابات اب اگر فروری میں نہ ہوئے تو بہار آجائے گی۔ بہار میں اگر کسی شاعر نے درخواست دے دی کہ ’بہار آئی تو جیسے یک بار لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے۔۔۔‘ تو پیارے بچو! انتخابات ایک بار پھر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو جائیں گے۔
صاحبو! انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی کرائیے، اگر نہیں بھی کروائیں گے تب بھی ہم بھٹو صاحب کی طرح سوائے ’اگر انتخابات نہ ہوئے۔۔۔‘ لکھنے کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں۔
بس آپ بھٹو صاحب کے ولن سے سبق لیجیے اور انتخابات کرائیے، بسم اللہ کیجیے، فتح آپ کی ہی ہو گی۔
(چاہے قسم اٹھوا لیجیے۔)
واپس کریں