دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بل پہ بل، مہنگائی کا طوفان کہاں رکے گا؟
آمنہ مفتی
آمنہ مفتی
مہنگائی بد سے بد ترین کی طرف گامزن ہے۔ پیٹرول کی قیمت ہر دوسرے ہفتے بڑھ رہی ہے، روپے کی قیمت اسی رفتار سے گر رہی ہے۔ کمانے والی کمریں دہری ہو رہی ہیں اور سنہری ہاتھوں کی انگلیاں خونچکاں ہیں۔وجہ کیا ہے؟ کرپشن، کرپشن، ہائے کرپشن۔ چور چور چور، ملک کو لوٹ کے کھا گئے چور۔کون چور؟ کس نے کی کرپشن؟ 20 خاندان تھے، 40 لوگ تھے، ویڈیو لیک کر دو، گرفتار کر لو، فلاں گنجا ہے، فلاں موٹا ہے، فلاں یہ ہے فلاں وہ ہے۔
ملک کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ جمہوریت ہے، سیاستدان ہیں۔ اجی اسٹیبلشمنٹ ہے اور کون ہے؟ اپنے بچے، اپنی جائیدادیں باہر ہیں، ہمارا بیڑہ غرق ہو جائے انہیں کیا؟
وہی واویلا ہے، وہی حال۔ حل کس کے پاس ہے؟ اب کسی کے پاس نہیں۔ ڈالر مصنوعی طور پہ نیچے لایا جائے گا۔
پشاور کی گولڈ مارکیٹ کریش ہو گئی کیونکہ ڈالر والوں نے اس طرف کا رخ کر لیا۔
حالات صرف بد ترین ہی نہیں خطرناک بھی ہیں۔ تجربات کرنے کے شوقین اور بیانیے بنانے کے ماہر اپنی محفوظ جنتوں میں بیٹھے ہیں۔
غربت منہ پھاڑے سب طرف دھمال ڈالتی پھر رہی ہے۔ تجربات کرنے والے اب بھی اسی خیال میں ہیں کہ عالمی حالات بدلیں گے، اور ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔
عالمی حالات بدلیں گے مگر آپ کے حق میں نہیں بدلیں گے۔ اپنی کوتاہ سوچ سے جو چھوٹے چھوٹے اہداف آپ مقرر کرتے ہیں ان کا خمیازہ ملک کو بہت دور تک ادا کرنا پڑتا ہے۔
بڑے بڑے نظریات اور نعروں کو اپنے بیانیے کے نیپکن میں پرونے والوں نے ’انقلاب‘ کا بھی خوب خاکہ پیٹا۔ اس لفظ کو ’تبدیلی‘ بنایا اور پھر اس تبدیلی کو بھی آخر دِلی دکھا دی۔
مصیبت یہ ہے کہ یہ لفظ بہت خطرناک ہوتے ہیں بموں سے زیادہ۔ ملک کے حالات جہاں پہنچائے جا چکے ہیں وہاں ’انقلاب‘ خود بخود آجاتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ انقلاب دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہاتے، خون کی ندیاں ہی تخلیق کرتے ہیں۔
اگلے چند روز میں اگلا بل آجائے گا، اس کے کچھ دن بعد پیٹرول کی قیمت پھر بڑھ جائے گی۔ انتخابات کو تو اب سب ہی بھول چکے ہیں کیونکہ انتخابات کے بعد بھی ہو گا کیا؟
شیدے کی جگہ میدا، اور میدے کی جگہ کھیدا میوزیکل چیئر کھیلتے پھریں گے۔لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ لوگوں کا کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے۔ کچھ مر جاتے ہیں کچھ بچ جاتے ہیں جو بچ جاتے ہیں وہ پھر سے بس جاتے ہیں۔ ملک بھی چلتے رہتے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ فیل شدہ تجربات کرنے والے تاریخ کے صفحوں میں ہمیشہ ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔
بے شک آپ یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتے رہیے کہ تاریخ تو ہم ہی لکھواتے ہیں مگر آپ ہی کے لیے آپ ہی کے ہاتھ سے پیسہ لے کے لکھنے والے کہیں نہ کہیں سچ لکھ رہے ہیں اور باقی سچ ہی رہ جاتا ہے۔
کسی زمانے میں لوگ ریلیف کی بات کرتے تھے۔ اب یہ ہمدردی بھی نہیں جتائی جاتی۔ لنگر خانے کھولے جاتے تھے، زکوٰۃ کے چیک تقسیم کیے جاتے تھے، عوام کو بہلانے کے لیے کچھ نہ کچھ لالی پاپ دیے جاتے تھے۔
اب یہ عالم ہے کہ پیٹرول، بجلی اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں طمانچے کی طرح منہ پہ لگتی ہیں، عوام بلبلا رہے ہیں، زاروقطار رو رہے اور مارنے والے بہلانے کو بھی تیار نہیں۔
’اب جبکہ رو رہا ہوں میں، آکے ہمت میری بندھائے کون؟‘
منتظر رہیے، بجلی کے اگلے بل اور پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافے کے، اپنے آنسو خود ہی پونچھیے، آپ کو اب لالی پاپ بھی نہیں ملے گا۔
واپس کریں