آمنہ مفتی
بارش، گھٹائیں، اودا کانچ آسمان، امڈتے ہوئے دریا، کناروں سے چھلکتے دریا، گلیوں کوچوں، تہہ خانوں، کچے مکانوں اور دریا کے کناروں پہ آباد بستیوں میں گھسا پانی اور اس پانی میں گھرے آپ کے میرے جیسے انسان۔
ساون کے موسم کے ساتھ ہمارے خطے کے رومانوی تلازمے جڑے ہیں۔ ساون کا ذکر آتے ہی امیر خسرو کے گیتوں، گھنگھور گھٹاؤں، آموں کی دعوتوں، بارش میں بھیگے ہوئے رنگین و سنگین فلمی نغموں، رنگین چنریوں، موتیے کے گجروں اور پکوانوں کے خوانوں کی دھنک ذہن کے پردوں پر ابھر آتی تھی، مگر پچھلے کچھ برسوں سے یہ موسم گیتوں اور رومانی وارداتوں کے موضوع کی بجائے آفات و مصیبتوں کا عنوان بن کر رہ گیا ہے۔
جس ساون کے آنے کی امید لگی رہتی تھی کہ گھر کر آنے والی بدلیاں مئی جون کی کڑاکے کی گرمیوں سے نجات دلائیں گی، اب اسی ساون کے آتے ہی آنے والے وقت میں بپا ہونے والے انسانی المیوں کا خوف دامن گیر ہوتا ہے۔
برسات کا موسم آتا ہے تو ہمارے خطے میں مون سون کے ساتھ ہی آبی آفات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہلم، چناب، راوی، ستلج، سندھ، یہاں تک کہ کبھی کبھار بڈھا راوی تک طغیانی کی کیفیت میں آجاتا ہے۔
شمالی، مغربی ہر دو پہاڑی سلسلوں سے رود کوہیاں، برساتی نالے، کسیاں، کاریز، آبشاریں، شورمچاتی، جھاگ اڑاتی میدانوں کا رخ کرتی ہیں، جل تھل ہو جاتا ہے اور پنجاب کے پانچوں دریا مل کے واقعی، پیج آب بن جاتا ہے۔ساری منظر کشی کا لطف اپنی جگہ لیکن یہ موسم اس خطے کے لیے جو صعوبتیں لے کر آتا ہے ان کلفتوں کا دکھ اپنی جگہ۔ ان مسائل کا حل کیا ہے؟ یہ خطے صدیوں سے آباد ہیں اور موسم کا یہ رنگ بھی صدیوں ہی سے ہے۔
گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے فقط اس سیلابی موسم کو مزید غیر یقینی کر دیا ہے۔ ہر آفت کا الل ٹپ حل بتانے بتانے والے بتاتے ہیں کہ اگر ہر جگہ ایک ڈیم بنا دیا جائے تو اس سب صورت حال سے نجات مل جائے گی۔
نجات تب بھی نہیں ملے گی۔ ہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کر، گنگا جمنا اور سندھ کی وادی سے لے کر بحیرہ عرب، بحر ہند اور خلیج بنگال تک ایک مربوط، آبی جغرافیہ موجود ہے۔ اس جغرافیے میں پہاڑ، دریا، دلدلیں، میدان، دو آبے، صحرا، جنگل اور مین گروز شامل ہیں۔
ڈیم کا غیر فطری حل اس جغرافیے کو اس برطرح بےچین کرتا ہے کہ ہم اس نقصان کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ ساون کے موسم کو اس خطے میں ایرانی بہار کی طرح خوشحالی، زرخیزی اور نمو کا موسم سمجھا جاتا تھا۔
جانے ہم بڑے ہو گئے، موسم بدل گئے، آبادی بڑھ کے فطرت سے بھڑ گئی، جانے کیا ہوا، کیا نہیں، ہم سے ہمارا ساون، ساون کے جھولے اور نیہر چھوٹ گیا۔ ساون کے کتنے ہی گیت یاد آ رہے ہیں لیکن چاروں طرف اس آبی غبار میں اب وہ گیت نہیں بھا رہے۔
محترمہ شیری رحمان، سمجھ دار، پڑھی لکھی اور ذہین خاتون ہیں۔ امید ہے ان کی وزارت، ان مسائل پہ توجہ دے گی اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل کے ان حالات کا دور رس اور پائیدار حل نکالے گی۔
واپس کریں