یاسر پیرزادہ
’’میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم نے آئین، قوانین اور عدالتوں سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کر لی ہیں ۔ یہ جھوٹی امیدیں ہیں۔ یقین کیجئے یہ جھوٹی امیدیں ہیں۔ آزادی، عوام کے دل میں ہوتی ہے، اگر یہ دل سے ہی مِٹ جائے تو کوئی آئین، کوئی قانون، کوئی عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔ اور اگر آزادی کی روح لوگوں کے دلوں میں موجود ہو تو پھر اُسکی حفاظت کیلئے کسی آئین، کسی قانون، کسی عدالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور یہ کون سی آزادی ہے جو لوگوں کے دلوں میں ہونی چاہئے... اِس آزادی کی روح کیا ہے؟ میں اسکی تعریف نہیں کر سکتا... آزادی کی روح وہ جذبہ ہے جو اپنے مدمقابل مردوں اور عورتوں کے ذہن میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے، آزادی کی روح وہ جذبہ ہے جو بغیر کسی تعصب کے اُنکے مفادات کو اپنے مفادات کےبرابر رکھ کر تولتا ہے۔ آزادی کایہ جذبہ ہمیں یاددلائے رکھتا ہے کہ ایک معمولی چڑیا کو بھی تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے۔ آزادی کی روح اُس (باپ ) کی روح ہے جس نے تقریباً دو ہزار سال پہلے انسانوں کو وہ سبق سکھایا تھا جو انسان نے کبھی نہیں سیکھا لیکن کبھی فراموش بھی نہیں کیا۔ آزادی کا یہ جذبہ ایسی ریاست کو جنم دیتا ہے جس میں نچلے طبقات کی شنوائی ہو اور انہیں طاقتور کے شانہ بشانہ سمجھا جائے۔‘‘ یہ امریکی جج لرنڈ ہینڈ کی مشہور زمانہ تقریر ’آزادی کی روح ‘ کا اقتباس ہے جو انہوں نے1944 ء میں کی ۔لرنڈ ہینڈ 52برس تک جج کے عہدے پر فائز رہے اور انہیں امریکی تاریخ میں ایک اعلیٰ پائے کے قانون دان اور فلسفی کی حیثیت حاصل ہے حالانکہ وہ کبھی سپریم کورٹ میں تعینات نہیں رہے ۔اُن کی یہ تقریر مجھے بے حد پسند ہے اور میں پہلے بھی ایک آدھ مرتبہ اِس کا ٹکڑا اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں۔پسندیدگی کی وجہ صاف ہے ۔ لرنڈ ہینڈ نے جس مسئلے کی نشاندہی اپنی تقریر میں کی ہے ہم اسی مسئلے کا شکار ہیں ۔یہ مسئلہ کیا ہے ؟
اگر ہم اِس ملک میں نافذ قوانین کی فہرست بنوائیں تو شاید قوانین کا صرف نام لکھتے لکھتے ایک ضخیم کتاب بن جائے ۔ہر قانون کی تشریح کیلئے علیحدہ سے کتابیںبھی موجود ہیں ، اِن کتابوں میں عدالتی فیصلے درج ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کیسے اور کہاں اِن قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے ۔ہر وکیل کے دفتر میں ایسی سینکڑوںکتابیں قطار اندر قطار رکھی ہوتی ہیں جن سے وکیل صاحب کےعالم فاضل ہونے کا رعب پڑتا ہے ۔اسی طرح آئین کی تشریح کی بھی ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں ، جج صاحبان نے ایک ایک شق پر درجنوں فیصلے سنا رکھے ہیں ، اِن فیصلوں کا روزانہ مختلف مقدمات میں حوالہ دیا جاتا ہے ،یہ فیصلے بھی مختلف کتابوں اور جرائد میں یکجا مل جاتے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور ہے ۔آئین ، قانون اور عدالتوں کے فیصلوں پر عمل کرنے کیلئے اور عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر لاتعداد وفاقی اور صوبائی محکمے قائم ہیں ، اِن میں لاکھوں ملازمین کام کرتے ہیں ، ہر محکمے کی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کیلئے بھی سرکار نے قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں اوراِن قواعد کی تشریح کیلئے بے شمار کتابیں موجود ہیں۔مگر اِن تمام باتوں کے باوجود جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں قدم قدم پر لوگ قانون شکنی کرتے نظر آتے ہیں ، بجلی چوری سے لیکر سرخ اشارے کی خلاف ورزی تک، کوئی ایسا قانو ن نہیں جس کی لوگ دھجیاں نہ اڑاتے ہوں۔کیوں ؟اِس مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں ۔ہم نے اِس ملک میں پہلا آئین 1956ءمیں بنایا ، پارلیمانی نظام حکومت تھا، قومی اسمبلی کی 300 نشستیں رکھی گئی تھیں جن میں سے نصف مشرقی پاکستان اور نصف مغربی پاکستان کے حصے میں آتیں ،بظاہر آئین میں کوئی بڑی خرابی نہیں تھی ، دنیا کے بیشتر ممالک میں اسی قسم کا آئین نافذ ہے اور بہترین کام کر رہا ہے مگر اسکندر مرزا نے یہ آئین منسوخ کر دیا۔1962 ءکے آئین نے ہمیں صدارتی نظام دیا ، یہ نظام بھی بہت سے ممالک میں کام کر رہا ہے مگر ہمارے ملک میں نہیں چل سکا ،بالآخر 1973 ءمیں ہم نے ایک متفقہ آئین منظور کیا جو آج تک نافذ ہے مگر اُس کی روح مفقود ہے ۔اِس دوران ہم نے ہر قسم کے تجربے بھی کیے۔مثلاً 1973ءکے آئین میں بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم ہوتی تھی جس کے تحت صدر منتخب قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے حکومت کو برخاست کر سکتا تھا ۔ اپنے سینے پر دیانتداری کا تمغہ سجانے کے دعویدار صدر اسحاق خان نے دو مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا۔اس اختیار کو بالآخر ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ہارس ٹریڈنگ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا ، اِس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ اراکین اسمبلی سے اختیار ہی چھین لیا کہ وہ اپنی جماعت کے سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈال سکیں گے، یوں وہ عضو معطل ہو کر رہ گئے ، حالانکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اراکین اسمبلی اپنی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں ۔آخری مثال نگران حکومت کی ہے، یہ ماڈل اِس لیے آئین میں لایا گیا تاکہ انتخابات کی شفافیت کو ایک غیر جانبدار حکومت کے ذریعے یقینی بنایا جا سکے۔ یہ ماڈل بھی ناکام ہوگیا۔اور کوئی نیا ماڈل بھی ناکام ہی ہوگا کیونکہ ہمارے سینوں میں آزادی کی روح نہیں ہے ۔ہم جو بھی نظام بنا لیں ، جو بھی آئینی ترمیم کر لیں ، کیسی ہی قانون سازی کر لیں، اُس وقت تک کسی بات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک ہمارے دل میں آزادی کی وہ روح نہیں ہوگی جس کا ذکر لرنڈ ہینڈ نے اپنی شہرہ آفاق تقریر میں کیا تھا ۔ بظاہر یہ ایک ایسی بند گلی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا لیکن ایسا نہیں ہے۔دنیا میں قومیں اِس مرحلے سے گزر کر آگے بڑھی ہیں لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کسی ایسی کھائی میں گر چکے ہیں جہاں سے نکلنا ممکن نہیں ۔میری رائے میں اِس کاحل یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کویہ سکھائیں کہ آئین اور قانون کی پاسداری یوں کریں جیسے کوئی مذہبی فریضہ ادا کر رہے ہوں۔جس طرح ہم اپنے دین کے بارے میں حساس واقع ہوئے ہیں اور اُس کے بارے میں کسی قسم کی غلط بات برداشت نہیں کر سکتے اسی طرح ہمیںآئین اور قانون کے بارے میںبھی حساس ہونا چاہیے ، چونکہ ہم اِس معاملے میں حساسیت کا مظاہرہ نہیں کرتے اِس لیے کوئی آئین توڑ دے ، قانون کی دھجیاں اڑادے یا قواعد و ضوابط کو روند دے ، ہمارےکان پر جوں نہیں رینگتی ۔آج اگر ہم اپنے بچوں کو اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ بات پڑھانا شروع کردیں ، بالکل اسی طرح جیسے ہم لازمی دینیات پڑھاتے ہیں، تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے دس پندرہ برس میں ایسی پود سامنے آجائے گی جو اِس کھائی سے نکلنے میں خود ہی کامیاب ہو جائیگی ۔ بظاہر یہ کام خاصا مشکل ہے مگر طریقہ یہی ہے ۔
واپس کریں