یاسر پیرزادہ
اسکردو کی تین خصوصیات ایسی ہیں جو اسے باقی دنیا سے ممتاز کرتی ہیں۔ایک،کٹپناصحرا،دوسری دیوسائی کا میدان اور تیسری بوریت۔اسکردو کاہوائی اڈہ پہاڑوں کے درمیان صحرا میں واقع ہے ، سرد صحرا کے بعد یہ دوسرا عجیب و غریب صحرا تھا جو ہم نے اسکردو میں دیکھا۔ اِس صحرا میں آپ خیمے لگا کر رہ سکتے ہیں ، مگر یہ وہ خیمے نہیں جو پرانے زمانے میں عرب بدوصحرا میں لگایا کرتے تھے بلکہ یہ فائیو اسٹار قسم کے خیمے ہیں جن کے ساتھ باتھ روم بھی ہوتا ہے اور گرم پانی بھی ۔اِس مرتبہ ہم دیوسائی نہیں جا سکے کیونکہ اُس کا راستہ 15 جولائی کے بعد بحال ہوتا ہے ، وہاں بھی یہ خیمے دستیاب ہیں ،حتّیٰ کہ دنیا کے اِس دوسرے بلند ترین میدان میں وائی فائی کی سہولت بھی مل جاتی ہے ۔یہ کام سیاحت کی ایک نئی کمپنی نے شروع کیا ہے جو پاکستان کے دورافتادہ سیاحتی مقامات پر لوگوں کو پُر آسائش خیموں میں رہنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔میں چونکہ خاصا آرام پسند واقع ہوا ہوں سو یہ آئیڈیامجھے بہت پسند آیا ۔ ویسے بھی سیر میں خود کو اذیت دینے کا، جسے یار لوگ ایڈونچر ٹورازم کہتے ہیں ،میں قائل نہیں ۔لیکن دنیا میں چونکہ سر پھروں کی کمی نہیں سو اِس سیاحت کی مانگ دن بدن بڑھتی جا رہی ہےاور اسکردو اِس کیلئے بہترین جگہ ہے ۔یہی نہیں بلکہ اِس پورے خطے میں تاریخی اور مذہبی نوعیت کے مقامات بھی بے شمار ہیں مگراِن تمام باتوں کے باوجود اسکردو سے سیاحت کی مد میں آمدن صفر ہے ۔ کیوں؟
میں پہلےبھی بہت مرتبہ لکھ چکاہوں کہ سیاحت ایک پورے پیکیج کا نام ہے ،اسکردو کی بات کریں تو یہاں آنے والے جہاز میں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد ہوتی ہےلیکن یہ لوگ کسی حکومتی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسکردو نہیں آتےبلکہ انہیں ایڈونچر ٹورازم کی لت چین نہیں لینے دیتی۔جس پرواز میں ہماری واپسی ہوئی اُس میں تھائی لینڈ، چین، جاپان اور انڈونیشیا کے علاوہ اور بے شمار ملکوں کے سیاح تھے اور وہ سب اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کرا سکردو آئے تھے ۔ یہ درست ہے کہ اِن سیاحوں نے اسکردو کے ہوٹلوں میں قیام کیا ہوگا، گاڑیاں کرائے پر لی ہوں گی، کھانے کھائے ہوں گے ، اِن سب چیزوں سے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچا ہوگامگر حقیقت میںاسکردو کو ڈالروں میں کوئی آمدن نہیں ہوتی کیونکہ حکومت نے کسی ہوٹل میں ٹورازم یا سٹی ٹیکس نہیں لگایاہوا اور اِس کی وجہ بظاہرمقامی لوگ ہیں جو کسی بھی قسم کے ٹیکس کے نفاذ کے سخت مخالف ہیں۔ دوسری طرف اگر آپ دنیا کے مشہور سیاحتی شہروں میں جائیں تو ہوٹل والے کرائے کے ساتھ سٹی ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں جو اسی شہر پر خرچ کیا جاتا ہے۔سو پہلا کام حکومت کو یہ کرنا چاہیے کہ اسکردو میں غیر ملکیوں کو پابند کرے کہ وہ ڈالروں میں ادائیگی کریں ، جیسے دبئی یا دوحہ کے ہوائی اڈے پر اگر آپ چائے کی پیالی خریدیں اور ڈالر میں ادائیگی کریں تو بقیہ رقم آپ کو مقامی کرنسی میں واپس کی جاتی ہے ، یہی طریقہ اسکردو میں بھی اپنایا جاسکتا ہے ۔دوسرا کام سٹی ٹیکس کا نفاذ ہے ، ملکی اور غیر ملکی سیاح سے سٹی ٹیکس وصول کیا جائے ، اُس کا علیحدہ کھاتہ ہو اور یہ ٹیکس صرف گلگت بلتستان پر خرچ کیا جائے ،اِس کا وفاق سے کوئی تعلق نہ ہو۔تیسرا اور سب سے اہم کام کوہ پیمائی کی آمدن ہے ۔
ضلع شگر کا آخری گاؤں جہاں انسانی آبادی ہے ،اسکول ہے ،یہاں سے کے ٹو کےبیس کیمپ کا فاصلہ تقریباً 90 کلومیٹر ہے مگر یہ کم ازکم سات سے آٹھ دن کا سفر ہے جو پیدل طے کیا جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اِس بیس کیمپ تک وہی لوگ جاتے ہیں جنہیں کے ٹو سر کرنے کا خبط ہوتا ہے ۔ایسا ہی جنون آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما جان سنوری کو بھی تھا ، علی سدپارا اُس کا پورٹر (قلی ) تھا ۔پورٹر کا کام کوہ پیما کا سامان اٹھانا اور اسے چوٹی سر کرواناہوتا ہے ، یہ پورٹر لوگ کوہ پیماؤں کے ساتھ تمام چوٹیاں سر تو کرتے ہیں مگر اِن کی کوئی پہچان نہیں ہوتی ،کوہ پیمائی کی تنظیم صرف کوہ پیما کو پہچانتی ہے اور اسی کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ فلاں کوہ پیما نے ماؤنٹ ایورسٹ یا کے ٹو سر کر لی۔ 5 فروری 2021 کو علی سدپارا ،جان سنوری اور ایک اور کوہ پیما کو لے کر نکلا تو موسم بے حد خراب تھا ، سدپارا نے انہیں اِس ایڈونچر سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر وہ دونوں کوہ پیما نہیں مانے ، مجبوراً سد پارا کو اُن کے ساتھ چلنا پڑا اور پھرکے ٹو سر کرتے ہوئے ’بوٹل نیک‘ کے مقام پر ، جسے ’ڈیتھ زون‘ بھی کہا جاتا ہے ، اِن تینو ں کی موت ہوگئی ۔ایک اور پورٹر حسن شگری کی موت کا قصہ تو اِس سے بھی زیادہ دلخراش ہے۔یہ پورٹر گزشتہ برس بین الاقوامی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم کولے کر نکلا مگر قسمت کا کرنا یہ ہوا کہ اسی بوٹل نیک کے مقام پر اُس کی حالت خراب ہوگئی اور وہ گر پڑا ۔ کوہ پیماؤں کی ایک اور ٹیم پیچھے آرہی تھی ، اُس کی سربراہ ناروے کی کوہ پیما کرسٹین ہیریلا تھی اوراُس کے ساتھ نیپالی پورٹرز تھے جنہیں شیر پا کہا جاتا تھا ۔پاکستانی پورٹرز کے مقابلے یہ شیر پا کہیں زیادہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں ،ہر قسم کے سازو سامان سے لیس ہوتے ہیں اوراِن کا لباس بھی بہتر اور محفوظ ہوتا ہےاور اِن کے پاس سیٹلائٹ فون بھی ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ کے ٹو سر کرتے ہوئے بھی رابطے میں ہوتے ہیں ۔ کرسٹین ہیریلا نے حسن شگری کو راستے میں گرا دیکھا مگر وہ اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گئی ، پیچھے کسی شیر پا نے سیٹلائٹ فون کی مدد سے اِس کی ویڈیو بنائی اور اسی وقت پوری دنیا میں پھیلا دی،یہ دل ہلا دینے والی ویڈیو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے ۔اِس ویڈیو کے وائرل ہونے کی دیر تھی کہ کوہ پیمائی کی دنیا میں بھونچال آ گیا ۔بوٹل نیک کے مقام پر حسن شگری کی موت واقع ہوگئی مگر کرسٹین ہیریلا نے کے ٹو سر کر لی۔مجھے علم نہیں کہ کوہ پیمائی سے اسکردو کو کوئی آمدن ہوتی ہے یا نہیں ، غالب امکان یہی ہے کہ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ میری رائے میں اِس کوہ پیمائی کی ڈالروں میں فیس مقرر کی جانی چاہیے اور اِس رقم کو پاکستانی پورٹرز پر خرچ کیا جانا چاہیے۔اگر نیپال جیسا ملک اپنے پورٹرز کو شیر پا بنا سکتا ہے تو ہم یہ کام کیوں نہیں کرسکتے۔ پورٹر کا کام تو کوہ پیما سے بھی بڑاہوتا ہے ، اگر علی سدپارا اور حسن شگری کے پاس بھی شیرپا والی سہولیات ہوتیں تو شاید اُ ن کی موت اِس درد ناک انداز میں نہ ہوتی۔
ہم اسکردو سے واپس تو آگئے ہیں مگر دل نہیں بھرا، کم از کم ایک مرتبہ پھر جانے کا ارادہ ہے ، دیوسائی میں رات بسر کرنی ہے ،خدا کی قدرت دیکھنی ہے اور اپنی مائیگی کا احساس جگانا ہے۔ دیکھیں پھر کب موقع ملتا ہے !
واپس کریں