دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا واقعی کالج میں پڑھنا ضروری ہے؟
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
’’برٹش کونسل کے مطابق اِمسال ایک لاکھ طلبا او لیول کا امتحان دے رہے ہیں، اِن امتحانات میں آٹھ مضامین کی فیس کل ملا کر 211000 روپے ہے، گویا فقط او لیول کے امتحان سے برٹش کونسل پاکستان سے 21ارب روپے اکٹھے کر کے لے جائے گا جبکہ وفاقی حکومت کا ہائر ایجوکیشن کا پورے سال کا بجٹ 65ارب روپے ہے، سو ہماری اشرافیہ کے بچے ایک امتحان پر 21ارب روپے خرچ کرتے ہیں جو قائد اعظم یونیورسٹی کے سات برس کے بجٹ کے برابر ہے۔‘‘ یہ کسی خاتون کی تحریر ہے جو مجھے ایک دوست نے بھیجی، اِس میں دیے گئے اعداد و شمار میں نے سرسری طور پر دیکھے ہیںجو بادی النظر میں درست معلوم ہوتے ہیں۔
جس وقت ہم اسکول میں پڑھتے تھے اُس وقت او لیول، اے لیول کا رواج شروع ہو چکا تھا مگر اکا دکا بچے ہی یہ امتحان دیتے تھے، چونکہ میٹرک کا معیار ابھی اتنا نہیں گرا تھا اِس لیے او لیول کی جانب جھکاؤ بہت کم تھا۔ ایک اور بات مجھے یاد ہے کہ اُس وقت اسکولوں میں پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، یہ کتابیں اغلاط سے پاک ہوتی تھیں اور اُن کی طباعت کا معیار بھی عمدہ تھا لیکن قیمت خاصی کم ہوتی تھی۔ اب اِن کی جگہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے لے لی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کیمبرج کے امتحان نے میٹرک کو پچھاڑ دیا ہے اور پی آئی اے کے فضائی راستوں پر غیر ملکی ائیر لائنز نے قبضہ جما لیا ہے۔ کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے! اِس زوال کی بے شمار وجوہات ہیں جن کی بحث میں جانے کا فی الحال وقت نہیں، سوال فقط یہ ہےکہ اِس ملک کا متوسط طبقہ اب کیا کرے۔ کیا ماں باپ پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو کیمبرج کا امتحان دلوائیں، اُس کے بعد نجی کالجوں کی بھاری فیسیں ادا کریں اور پھر اُس دن کا انتظار کریں جب اُن کا بچہ یہ تمام قرض اتار کر انہیں حج یا عمرہ کروانے کے قابل ہوگا، پانچ مرلے کا گھر بنا لے گااور بڑھاپے میں اُن کی دواؤں کا خرچہ اٹھالیا کرے گا!!!
اِس میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وزارت تعلیم میں کسی کے ریڈار پر یہ بات نہیں ہو سکتی کہ ہمیں اپنا امتحانی نظام درست کرنا ہے تاکہ کیمبرج کو ادا کیے جانے والے 21ارب روپے ہم اپنے بچوں پر خرچ کر سکیں، لہٰذا اِس امید پر تو زندگی نہیں گزاری جاسکتی کہ یہ نظام ٹھیک ہو گا اور ہمارے دَلِدّر دور ہوں گے۔ شاید اکثریت کو بھی یہ خوش فہمی نہیں ہے، اسی لیے ہم اپنے بچوں پر بے تحاشہ ’سرمایہ کاری‘ کرتے ہیں، اور یہ خوش آئند بات ہے، دنیا میں بہت کم ممالک میں یہ رجحان پایا جاتا ہے اور ہم اُن میں سے ایک ہیں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ یہ سرمایہ کاری غلط جگہ کی جا رہی ہے کیونکہ والدین اپنی زندگی اجیرن کر کے بچوں کی اسکول کالج کی فیس ادا کرتے ہیں، اِس امید پر کہ یہ سرمایہ کاری مستقبل میں دونا منافع دے گی مگرہر گزرتے دن کے ساتھ اِس سرمایہ کاری پر منافع کی شرح گھٹتی جا رہی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ اسے سرمایہ کاری کا نام دے کریوں خشک اور غیر جذباتی انداز میں بیان کر رہا ہوں کہ اِس میں محبت کا عنصر نظر ہی نہیں آ رہا، لیکن والدین اور اولاد کی محبت کا موضوع علیحدہ ہے، اُس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ میری رائے میں بارہ جماعتوں تک تعلیم کے بعد، چاہے ایف اے ہو یا اے لیول، بچوں کو مہنگے کالجوں میں پڑھانا کوئی دانشمندانہ فعل نہیں، اِن پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیاں میں ایسی کوئی سوغات نہیں بانٹی جا رہی جس سے محروم رہ جانے پر بندے کو پچھتاوا ہو۔ میں ایسے ایسے سفید پوش اور متوسط طبقے کے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی دو وقت کی روٹی بمشکل پوری ہوتی ہے مگر وہ اپنے بچوں کی لاکھوں روپوں کی فیسیں جمع کروا رہے ہیں، اچھے مستقبل کی امید پر۔ ہر سال لاکھوں بچے اِن مہنگے کالجوں سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں، اُن میں سے کتنے ایسے ہیں جنہیں ماہانہ دو لاکھ تو کیا ایک لاکھ کی نوکری بھی ملتی ہے؟ اپنے بچوں پر ہم فیسوں کی مد میں بیکار روپے خرچ کر دیتے ہیں مگر یہ روپے ہم انہیں کسی کاروبار کیلئے نہیں دے سکتے، کیوں؟ اِس لیے کہ ہمارے دماغ میں زندگی کی ایک ترتیب بیٹھی ہوئی ہے جس کے مطابق بچے نے پہلی جماعت سے لے کر سولہ جماعتیں پڑھنی ہیں، نوکری تلاش کرنی ہے، شادی کرنی ہے، بچے پیدا کرنے ہیں اور پھر اُن بچوں کی فیسیں ادا کرنی ہیں، جونہی ہمیں کوئی اِس ترتیب سے ہٹ کر مشورہ دیتا ہے، ہم گھبرا جاتے ہیں، اور اِس میں ہمارا کوئی قصور بھی نہیں کیونکہ متوسط طبقہ بیچارہ ایسا ہی ڈرپوک ہوتا ہے، سرمایہ دار کی طرح وہ یہ رِسک نہیں لے سکتا کہ اپنے بچے کو کالج میں پڑھانے کی بجائے کاروبار میں لگا دے۔ لیکن اب ہمیں یہ سوچ تبدیل کرنا ہو گی کیونکہ اِسکے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
ایف اے /ایف ایس سی /اے لیول کے بعد ہمیں اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجنا چاہیے تاکہ انہیں پتا چلے کہ یہ سفاک دنیا کیسے کام کرتی ہے، انہیں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کروا دیں یا کسی کی دکان پر بٹھا دیں، آج کل تو آن لائن کا دور ہے، بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں آن لائن کام کرتے ہیں، ساتھ تعلیم بھی جاری رکھتے ہیں۔ جس ڈگری کو حاصل کرنے میں چار سال اور لاکھوں روپے لگتے ہیں، اُس سے زیادہ دنیا داری توچار سال میں سیکھی جا سکتی ہے بشرطیکہ آپ بچے کو یہ موقع دیں۔ ذرا ایک لمحے کیلئے یوں تصور کریں کہ آپ کے بچے نے چار سالہ بی ایس میں داخلہ لیا ہے جس کی سالانہ فیس آٹھ لاکھ ہے، چار سال بعد اسے ایک ڈگری ملے گی اور ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ساتھ ہی نوکری بھی مل جائے گی۔ اِس کے مقابلے میں تصور کریں کہ آپ نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو چارسال کے ’کاروباری پروگرام‘ میں ’داخل‘ کروا دیا ہے، ساتھ میں اُن کی پرائیویٹ تعلیم بھی جاری رہے گی جس کا خرچہ آٹھ لاکھ سالانہ سے کہیں کم ہے، تو چار سال بعد کیا وہ اِس قابل بھی نہیں ہوں گے کہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اُس بچے سے بہتر مستقبل بنا لیں جس نے کاروبار کی الف ب بھی نہیں سیکھی اور جس کا مکمل دارومدار نوکری پر ہے؟ اگر اِس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو اپنے بچوں پر اعتماد کریں، اپنے تئیں جو روپے آپ اُن پرخرچ کر رہے ہیں وہ دراصل پرائیویٹ کالجوں کے بینکوں میں جا رہے ہیں، سواِن کالجوں کو دینے کی بجائے یہ روپے براہ راست بچے پر خرچ کریں، نتیجہ کم از کم اُس سے ضرور بہتر نکلے گا جو اِن نام نہادکالجوں کی ڈگریاں حاصل کرنے سے نکل رہا ہے!
واپس کریں