یاسر پیرزادہ
سیلف ہیلپ کتابوں کا رول ماڈل اگر کسی کو کہا جا سکتا ہے تو وہ سندر پچائی ہیں، گوگل کے چیف ایگزیگٹو آفیسر۔ موصوف کی عمر 52 سال ہے اور وہ ایک ذہین، قابل اور محنتی آدمی ہیں۔ مسٹر پچائی دنیا بھرکے یو ٹیوبرز اور موٹیویشنل سپیکرز کی پسندیدہ شخصیت ہیں، ان کی بھاری بھرکم تنخواہ کی مثالیں دی جاتی ہیں اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے بتایا جاتا ہے کہ کیسے تامل ناڈو میں پیدا ہونے والا ایک لڑکا چھوٹی سی عمر میں اربوں ڈالر مالیت کی کمپنی کا سی ای او بن گیا۔
یوں سمجھیے کہ مسٹر پچائی میں وہ تمام گن ہیں جن کی خواہش کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد میں کر سکتے ہیں۔ ’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب ‘ والا مصرع مسٹر پچائی پر فٹ بیٹھتا ہے۔
جبکہ ہم جیسوں کے لیے شاعر نے کہا ہے ؎
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
آج بیٹھے بٹھائے مسٹر پچائی کا خیال یوں آیا کہ میں انسٹا گرام پر وقت ضائع کر رہا تھا کہ واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر نظر سے گزری، جس میں بتایا گیا تھا کہ گوگل نے مزید 20 ملازمین کی یہ کہہ کر چھٹی کروا دی ہے کہ کام کی جگہ پر سیاست نہیں کی جا سکتی اور یوں گذشتہ ایک ہفتے میں گوگل سے نکالے جانے والے ملازمین کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔
شانِ نزول اس بات کی یہ ہے کہ گوگل نے اسرائیلی حکومت سے کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا ایک معاہدہ کیا، جس پر کمپنی کے بعض ملازمین نے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری کے تناظر میں تنقید کی۔
جواب میں مسٹر پچائی نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ملازمین کمپنی کو ذاتی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہ کریں اور سیاسی جھگڑوں اور مباحث میں پڑنے سے گریز کریں۔
یہ بالکل اسی طرح کا ہدایت نامہ تھا جیسا کسی زمانے میں ہمارے ڈھابوں اور چائے خانوں کی دیواروں پر چسپاں ہوتا تھا کہ ’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔‘
اصل میں مسٹر پچائی کہنا یہ چاہتے تھے کہ بھائیو اور بہنو، اسرائیل سے ہمارا جو کروڑوں ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے، اس کی اہمیت غزہ میں مرنے والے معصوم بچوں اور بے گناہ لوگوں کے خون سے کہیں زیادہ ہے، لہٰذا ہوش کے ناخن لو، کیوں اپنی اور میری نوکری کے پیچھے پڑے ہو۔
سندر پچائی کو تھوڑی دیر کے لیے اس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور کچھ خبر اپنے گھر کی لیتے ہیں۔
خبر یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی اور ہیلری کلنٹن مشترکہ طور پر نیویارک کے براڈوے تھیئٹر میں موسیقی کا پروگرام پیش کریں گی جس میں عورتوں کی اس جدو جہد کا اظہار کیا جائے گا جس کے نتیجے میں انہیں ووٹ ڈالنے کاحق حاصل ہوا۔
ملالہ یوسفزئی کو جب امن کا نوبیل انعام ملا تھا تو خاکسار نے بڑھ چڑھ کر ملالہ کو خراج تحسین پیش کیا تھا لیکن جب سے اسرائیل نےغزہ پر حملہ کر کے وہاں قتل عام شروع کیا ہے تب سے ملالہ فلسطینیوں کی اس نسل کشی پردو ٹوک موقف اختیار کرنے سے کترا رہی ہیں۔
اس پورے عرصے کے دوران ملالہ نے ہومیوپیتھک قسم کی ٹویٹس کی ہیں جن سے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہیں یا فلسطینیوں کے ساتھ، یعنی ’یزید سے بھی مراسم، حسین‘ کو بھی سلام۔ اور اب ملالہ نے رہی سہی کسر ہیلری کلنٹن کے ساتھ براڈوے میں موسیقی کے پروگرام میں شراکت داری کر کے پوری کر دی ہے۔
اس حرکت پر ملالہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ٹوئٹر پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔
ان تمام ٹویٹس میں سے اگر مجھے کسی ایک ٹویٹ کا انتخاب کرنا ہو جو میرے جذبات کی صحیح ترجمانی کر سکے تو وہ یہ ہو گی: ’مجھے ہر اس شخص سے نفرت تھی جو ملالہ سے نفرت کرتا تھا، مگر افسوس کہ ملالہ نے دغا کی۔ اب ان کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے، ان کی روح مکمل طور پر مردہ ہو چکی ہے۔‘
میں نے یہ کالم یہیں تک لکھا تھا کہ پتہ چلا کہ ملالہ نے بالآخر آج ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔
ملالہ کو یہ بیان جاری کرنے میں چھ ماہ لگے یعنی ’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔
سندر پچائی اور ملالہ یوسفزئی کے پاس اگر اپنی قسمت خود لکھنے کا اختیار ہوتا تو بھی یہ دونوں ایسی تقدیر نہ لکھ پاتے، جیسی انہیں اس زندگی میں ملی ہے۔
لیکن اس کے باوجود مسٹر پچائی تو زندگی کے امتحان میں فیل ہو گئے جبکہ ملالہ 33 فیصد نمبر لے کر بمشکل پاس ہوئی ہیں۔
سندر پچائی کے پاس موقع تھا کہ وہ گوگل کے سامنے ڈٹ جاتے اور کہتے کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ نہیں ہو گا، مگر اس کے لیے انہیں اپنی نوکری داؤ پر لگانی پڑتی۔عین ممکن تھا کہ نوکری سے ہی ہاتھ دھونے پڑتے مگر تاریخ میں نام بن جاتا۔ سندر پچائی جتنے پیسے کما چکے ہیں، وہ سات جنم کے لیے کافی ہیں۔
مگر وہ انسان ہی کیا جو یہ بات سمجھ جائے، مہاتما بدھ نے اڑھائی ہزار سال پہلے سمجھانے کی کوشش تھی، مگر آج تک چند لوگ ہی یہ گیان حاصل کر پائے ہیں۔
جہاں تک ملالہ کا تعلق ہے تو طالبان نے انہیں اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ سکول جاتی تھیں۔ دنیا نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور کم عمری میں نوبیل انعام سے بھی نواز دیا۔
ملالہ کے علاوہ بھی دنیا میں بے شمار بچیاں ہوں گی جنہوں نے شاید اس سے بھی زیادہ دلیری کا مظاہرہ کیا، ہو مگر قسمت کی دیوی ملالہ پر مہربان ہوئی۔
اسرائیل کی حالیہ جنگی جارحیت نے ملالہ کو موقع دیا تھا کہ وہ ثابت کریں کہ واقعی وہ اس انعام کی حقدار تھیں مگر ملالہ نے اس موقعے پر اس کیریکٹر کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے تھا۔
یوں لگتا ہے جیسے ہیلری کلنٹن کے ساتھ شراکت داری کی خبرآنے کے بعد ملالہ پر جو کڑی تنقید ہوئی ہے، اس نے ملالہ کو مجبور کیا کہ اسرائیلی جارحیت کے بارے میں اپنا موقف واضح کریں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے گذشتہ چھ ماہ میں جس طرح بچوں، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا ہے، اس کے بعد کسی انسانی حقوق کے چیمپیئن، دانشور اور لکھاری کے پاس یہ گنجائش نہیں تھی کہ وہ خاموش رہتا/رہتی یا پھر اس قسم کی ہومیوپیتھک مذمت کرتی جیسی ہمارے ملک میں طالبان کے حمایتی دانشورخودکش حملوں کے بعد ان کی مذمت کیا کرتے تھے۔
ملالہ اور سندر جیسے لوگوں کے کیریکٹر کا یہی امتحان تھا۔ دنیا کا کیا ہے، وہ تو سمگلروں کو بھی مل جاتی ہے۔
واپس کریں