عفت حسن رضوی
ایسا نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت پہلی بار آئی ہے اور ہمیں اس کی عادت نہیں، ایسا بھی نہیں کہ مخصوص خاندانوں کو پہلی بار اقتدار کی کرسی ملی ہے یا اقتدار ملنے کی یہ باری آخری ہے۔یوں بھی نہیں کہ کوئی انہیں اور ان کی خدمات کو جانتا نہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ جگہ جگہ اپنے نام کی تختی لگانے کی حسرت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
حکمرانوں کو اپنی شکل کے ساتھ پتہ نہیں جنون کی حد تک وہ کون سا لگاؤ ہے کہ شہر کی دیواریں، ڈبے، ڈھکن، بوری، کارٹن، ٹرک اور پینافلیکس گویا ہر سیدھی سطح پہ ان کی تصویر چسپاں ہو رہی ہے۔
یہ بچپن سے خود کو آئینے میں دیکھ رہے ہیں اور ہم بھی اپنے بچپن سے ان کو بطور حکمران دیکھ رہے ہیں، پھر یہ کیسی خواہش ہے جس کی تسکین نہیں ہو رہی یعنی اپنی صورت دیکھے چلے جانا ہے؟
پہلے سوچا کہ ہمیں بیچارے حکمرانوں کو شک کی گنجائش دینی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ جنہیں خواہ مخواہ صلواتیں سنا رہے ہوں ان کو مشہوری کی کوئی خواہش نہ ہو، یہ کارستانی نکلے ان ہمجولی ساتھیوں کی جن کو مکھن لگانے کا اوچھا آئیڈیا سوجھا۔
وزیراعظم اور وزرائے اعظم تو مصروف لوگ ہوتے ہیں، ان کے کاندھے پہ کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی کا انحصار ہے، ان کے پاس بھلا کہاں اتنا وقت ہوگا کہ فوٹو سیشن کرواتے پھریں تاکہ کسی ڈبے یا ڈھکن پہ ان کی رنگین قد آدم فوٹو لگ سکے۔لیکن بعض ویڈیوز دیکھنے کے بعد نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ اس بچپنے میں سارے کا سارا کنبہ شامل ہے۔
اپنی شخصیت کے محاسن گنوانا تو چلیں سب ہی سیاست دانوں کا شوق ہوتا ہے، ساری دنیا میں سیاست دان خود کو نجات دہندہ اور روحانی طاقتوں سے منتخب قرار دیتے ہیں، لیکن جوتوں سمیت جس دیدہ دلیری سے ہمارے حکمران عوام کی آنکھوں میں اتررہے ہیں یہ اور ہی لیول ہے۔
اگر مقصد مارکیٹنگ ہے تو مارکیٹنگ سیلز سے پہلے کا کام ہوتا ہے۔ ایک بار آپ کا آئیڈیا، آپ کا منشور ہاتھوں ہاتھ لے لیا گیا پھر باری آتی ہے پروڈکشن کی۔
پروڈکٹ اعلیٰ ہو تو نتائج کارکردگی کی شکل میں خود بولتے ہیں۔
اپنی کامیابی کا ڈنکا بھی بجانا ہو تو بڑے سائز کے منہ والی فوٹو نہیں لگائی جاتی، پرفارمنس دکھا دی جاتی ہے، باقی نیت کا فیصلہ اوپر والا اور کارکردگی کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔
ہمارا رونا یہ ہے کہ الیکشن جیسا تیسا بھی ہوا، تمام ہوا، مگر حکومت بنانے والے الیکشن جیسی مارکیٹنگ کے شوق سے باہر نہیں نکل پا رہے۔
عام لوگ اپنے گھر کو اپنا من پسند نام دے دیتے ہیں جیسے کہ قصرِ فلاں، کاشانہ فلاں ابن فلاں۔ ایسے ہی ایک زمانہ تھا گھر کے باہر تختی پہ صاحب خانہ کا نام ڈگریوں سمیت لکھا ہوتا تھا۔ مسٹر فلاں ایم اے، ایم ایڈ۔بیوروکریسی کی نظر پڑ جائے تو شہر کی شاہراہوں کے نام مشہور لیجنڈ شخصیات کے نام پہ رکھ لیے جاتے ہیں، بعض کو زندگی اور بعض کو بعد از مرگ اپنے نام کی سرکاری تختی نصیب ہوتی ہے، لیکن اس کالم کا اشارہ جن افراد کی جانب ہے یہ حاکمِ وقت ہیں، عوام کی کمائی کے امین، سرکاری خزانے کے جوابدہ اور بقول وزیراعظم شہباز شریف صوبوں کے حکمران خادم اعلیٰ ہیں۔
یہ خادمین اعلیٰ اگر اپنی جائیدادیں بیچ کر اس پیسے سےعوامی فلاح کا پروجیکٹ لانچ کر رہے ہوں تو ہم بھی داد و تحسین دے دے کر اپنا گلا خشک کرلیں۔
لیکن وہ سرکاری سکیم یا پروجیکٹ جس پہ خالصتاً ریاست کا خزانہ اور عوام سے وصول کیا گیا ٹیکس لگا ہو، اس پہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے کریڈٹ تو لیا جاسکتا ہے لیکن اسے اپنا ٹریڈ مارک دینا گویا امانت میں خیانت ہے۔
دو برس قبل ایک انڈین صحافی نے اپنا کرونا ویکسینیشن کا سرٹیفیکٹ دکھایا، دستاویز پہ وزیراعظم نریندر مودی کا منہ ضروری معلومات سے بھی بڑا نظر آیا۔ ہم نے دیکھتے ہی تمسخر اڑایا کہ یہ تو سرکس کا ٹکٹ لگ رہا ہے۔
مولا خوش رکھے ہمارے والوں کو، آج بھی ہمیں فوٹو والی مشہوری کے شوقین حکمرانوں کا سامنا ہے۔
پروجیکٹ ریاست کے ہوتے ہیں، انہیں حکومتیں لانچ کرتی ہیں اور بیوروکریسی چلاتی ہے۔ ان عوامی پروجیکٹس کا فیصلہ کرنے پہ بلاشبہ حکمران تعریف کے مستحق ہوتے ہیں لیکن عوامی پروجیکٹ کسی فرد کی ملکیت نہیں ہوا کرتے۔
ان پروجیکٹس کی مالک، نگران اور ذمہ دار چونکہ ریاست ہوتی ہے، اس لیے حکومتیں بدلنے پہ بھی ان پروجیکٹس کی سکیم اور پلاننگ نہیں بدلا کرتی۔
یہ باتیں تو کتابی ہوگئیں، اب ذرا نظر ہمارے نظام مملکت پہ کرتے ہیں۔ یہاں تختیوں کی ہُڑک میں اپنے نام اور فوٹو کے ساتھ پروجیکٹ لانچ ہوتا ہے اور حکومت جاتے ہی پروجیکٹ کا بستر گول ہوجاتا ہے، تختی اکھاڑ دی جاتی ہے، بینر نوچ لیا جاتا ہےاور فوٹو کھرچ دی جاتی ہے۔
پچھلی حکومت کو جگہ جگہ مصلیٰ بچھا کر جماعت کھڑی کرنے کا آئیڈیا جس کسی حکومتی مشیر نے دیا تھا، لگتا ہے مشہوری کی دنیا کا وہ ارسطو شاید اب بھی فیصلہ سازوں کی راہدریوں میں منڈلا رہا ہے۔
واپس کریں