عفت حسن رضوی
دنیا کی تاریخ طاقت ور ترین آمروں کے غیض غضب کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ ان داستانوں میں لکھا ہوتا ہے کہ ہٹلر کو اپنے تراشے بالوں کی کتنی لمبائی پسند تھی، مغل بادشاہ کو سنگ تراشوں کا کام نہیں بھایا تو ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کر دیا، نواب کو شام کے کھانے میں کباب کے تھال پہ زندہ کبوتر کا پھڑپھڑانا کتنا اچھا لگتا ہے۔تاریخ کی کتابوں میں آمروں کی بربریت کا دور مل جائے گا۔ آمروں کے اچھے فیصلے بھی رقم ہوں گے یہاں تک کہ دنیا بھر کی تاریخ سے بھری کتابیں ان کے زوال کی وجوہات و حالات بھی سناتی ہیں۔
لیکن یہ تاریخی کتب یہ نہیں بتا پاتیں کہ وہ خواب جو آمر دیکھتے تھے وہ کیا ہوئے، وہ حسرتِ تعمیر جو لگ بھگ ہر ڈکٹیٹر سے محلات تعمیر کرواتی ہے ان حسرتوں کا کیا ہوا؟
اصلی ریشم کے دھاگوں سے بنے وہ دبیز قالین کہاں دھول مٹی کھا رہے ہیں جن پہ مہمانوں کے جوتے دھنس جاتے تھے اور سر اپنے آپ جھک جاتے تھے؟
آمروں کے مہمان خانوں میں لٹکے وہ عظیم و الشان فانوس کہاں اپنے نصیبوں کو رو رہے ہیں جن کی آب و تاب سے کبھی آنکھیں چندھیا جاتی تھیں؟
مختصر جواب ہے کہ وہ خواب، وہ خیال، وہ غرور اور وہ شان سب کباڑ خانوں میں ہیں۔
میں عراق کے خاصے طویل سفر پہ نکلی ہوں اور کل کا پورا دن صدام حسین کے ایک محل میں گزرا۔ محل کبھی ہوتا ہو گا اب جو ہے وہ اگلی سطروں میں پڑھیں۔
آمر صدام حسین نے 24 برس عراق پہ حکومت کی، یہاں تک کہ 2003 کے امریکی حملوں میں اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
صدام حسین نے اپنے دور میں آمریت کیسے نافذ کی یہ میرا موضوع نہیں لیکن ایک انتہائی طاقت ور آمر کیا چھوڑ گیا یہ دیکھ کر عقل حیراں ہے۔
عراق میں صدام حسین کے کل 166، بعض خبر رساں ادارے کہتے ہیں 300 محل تھے اور سب کو صدارتی رہائش گاہ کا درجہ حاصل تھا۔یہ سارے محل عراق کے طول و عرض میں موجود ہر تاریخی مقام یا سیاسی طور پر اہم ڈسٹرکٹ میں بنائے گئے تھے۔
صدام حسین کا تعلق تکریت سے تھا اسی نسبت سے صرف تکریت میں 60 سے زیادہ ولاز پر مشتمل صدراتی کمپاؤنڈ تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ فرض کریں 300 محل بھی تھے تو ایک بندہ کہاں کہاں ہو سکتا ہے؟ تو لطف کی بات یہ ہے کہ ان سینکڑوں محلات میں سے بعض ایسے تھے جہاں صدام حسین نے محض ایک بار ہی قدم رکھا یا صرف ایک رات رہائش اختیار کی۔
بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے بالکل ساتھ ہی جو محل ہے وہ خالصتاً غیر ملکی مندوبین کو مرعوب کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
محل کے چہار جانب مصنوعی جھیل بنائی گئی تھی اور محل کی آرائش میں سونے کا استعمال کچھ زیادہ ہی کیا گیا تھا۔ آج کل اس محل کی عمارت کو ٹھیکے پر ایک تعلیمی ادارے کو دیا ہوا ہے۔
دوسرا قابل ذکر محل بابل میں موجود ہے۔ بابلون یا بابل عراق کا وہ علاقہ ہے جسے دنیا بھر میں انسانی تاریخ کا پہلا شہر کہا جاتا ہے، اس کی تاریخ چھ ہزار سال سے بھی پرانی ہے۔
بابل تہذیب کے نیست و نابود ہونے اور قیامت تک کھنڈر بنے رہنے کا ذکر تینوں ابراہیمی مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام میں ملتا ہے۔صدام حسین کی خصوصی ہدایات پر بابل کے کھنڈرات کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اسے مشہور سیاحتی مقام بنانے کا پلان شروع ہوا۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن صدام حسین کے کسی ناہنجار مشیر نے مشورہ دیا کہ وہ بابل کی طرز پر یہاں اپنا عالیشان محل بنوائے۔ یوں 1987 میں بابل کے کھنڈرات کے سائے تلے صدام کا محل کھڑا کر دیا گیا۔
اس محل کے اٹالین ماربل پہ ص اور ح کا سٹامپ اس کے ڈیزائن کا حصہ ہے جبکہ صدام حسین کے چہرے سے سجا ماربل محل کے ہر داخلی دروازے پر ہے جسے بابل تہذیب کے بادشاہوں کی طرز پہ ڈیزائن کیا گیا۔
محل اونچائی پر بے تو اس کے دیوان اور ہالز سے بابل کے کھنڈر اور دریائے فرات کا بہتا پانی یوں لگتا ہے جیسے دیکھنے والے کے قدموں تلے ہے۔
آج اس محل کی دیواریں گندی گالیوں، سیاسی نعروں سے رنگین ہیں، محل امریکی قبضے کے دوران ہی تاراج ہو گیا تھا۔ چرانے والے یہاں سے بجلی کی تاریں تک نوچ کر لے گئے۔اب یہاں شام میں لگڑ بھگے بھٹکتے ہیں۔ محل میں درجنوں ہال ہیں اور ہر بڑے دیوان خانے کے وسط میں ٹنگا فانوس گنجا ہو چکا ہے جس میں چڑیوں اور الوؤں نے گھونسلے بنا لیے ہیں۔
اس محل میں ایک دیوان خاص صرف صدام حسین کو سلیوٹ پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے وسط میں سلیوٹ کرنے والے فوجی کے لیے گول دائرہ بنا ہے۔
اس دائرے پہ کھڑے ہو کر فوجی جو سلیوٹ مارے اور بوٹ زمین پہ پٹخے تو سارا محل لرز اٹھتا تھا۔
اس عبرت ناک محل میں میرے گائیڈ بتانے لگے کہ صدام حسین کو سلیوٹ میں اپنے فوجی کے بوٹ سے نکلنے والی آواز پسند تھی۔ سو آمر کو جو پسند ہو وہی قانون ہو جاتا ہے۔
محل کے ڈیزائنر نے اس گول دائرے کو خاص ڈیزائن کیا تاکہ بوٹ کی سلامی صدام کو دی جائے تو پورے محل کے در و دیوار لرز کر سلامی دیں۔
اس بچپنے کے شوق رکھنے پہ سلیوٹ نہیں اکیس توپوں کی سلامی بنتی ہے۔ خیر میں نے جو جھنجھلاہٹ میں پیر پٹخا تو محل کا وہ ہال خاصی دیر گونجتا رہا۔
اب نہ صدام حسین ہے اور نہ اس کی واہ واہ کرنے والے وزیر مشیر، اور نہ بوٹ مار سلیوٹ ٹھوکنے والے فوجی۔
ہاں تاریخ کا قہقہہ گونج رہا ہے، وہ قہقہہ جو تاریخ آمروں کی تاابد زندہ رہنے کی مضحکہ خیز خواہش پہ لگاتی ہے۔
واپس کریں