عفت حسن رضوی
سٹور تھنگ ناروے کی پارلیمنٹ کو کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں بڑی چیز۔ ناروے جہاں آئین و قانون کا بول بالا ہے وہاں پارلیمنٹ واقعی بڑی چیز ہے۔ اسی پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر جمہوری نمائندے فیصلے کرواتے ہیں لیکن عمارت کے باہر فیصلہ جمہور سناتی ہے۔اوسلو میں نارویجن پارلیمنٹ کی عمارت کا احاطہ بالکل ویسے ہی استعمال ہوتا ہے جیسے پاکستان میں ہونے والے احتجاج کے لیے اسلام آباد کا ڈی چوک۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں پریس کلبوں کے باہر احتجاج نہیں ہوا کرتے کیوں کہ میڈیا بغیر کسی ایجنڈے کے ہر جمہوری تحریک کو کوریج دیتا ہے۔ سو نارویجن میڈیا کو جگانے کے لیے اس کا دروازہ نہیں پیٹنا پڑتا، دوسرا یہ کہ یہاں احتجاج یا ریلی نکالنا ہر انسان کا بنیادی حق مانا جاتا ہے سو اپنا حق جتانے کے لیے پارلیمنٹ سے بہتر کون سا مقام ہوسکتا ہے۔
گذشتہ برس سات اکتوبر کے واقعات کے بعد فلسطین پہ اسرائیلی جارحیت نے ایک نئی اور شدید صورت اختیار کر لی۔ فلسطین پہ اسرائیلی بربریت کے واقعات نئے نہیں لیکن جو مناظر اس بار سوشل میڈیا کے ذریعے ہر ہتھیلی پہ سجے موبائل فون دکھا رہے ہیں، وہ نوعیت بہت مختلف ہے۔
دنیا بھر کی طرح نارویجن عوام بھی یہ مناظر دیکھ رہے ہیں، لیکن نارویجن عوام کا فلسطینیوں کی حمایت میں ردعمل دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت واضح اور کھرا ہے۔
ناروے میں مقبول نعرہ ’بائیکاٹ اسرائیل‘ ہے۔ بائیکاٹ اسرائیل کا نعرہ شاید مسلمان پناہ گزین کسی نہ کسی جھجک کے ساتھ لگاتے ہوں لیکن مقامی نارویجن بڑے دھڑلے سے نارویجن زبان کی گالم گلوچ کے ساتھ عوامی مقامات پہ اسرائیل کی کلاس لیتے ہیں۔فلسطین کی حمایت میں بعض نارویجن اتنے جذباتی ہیں کہ مظاہروں میں ایسے کئی افراد نظر آتے ہیں جو زار و قطار رو رہے ہوتے ہیں، جو سسکیاں لے رہے ہوتے ہیں یا سرخ آنکھوں کے ساتھ دنیا سے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ کم از کم فلسطین کے بچوں پہ رحم کھاؤ۔
اپنے یہاں کسی دوسرے ملک کا جھنڈا لہرانے پہ غداری کے مقدمات بننے کا ڈر لگا رہتا ہے لیکن ناروے میں مظاہرین فلسطین کا جھنڈا پارلیمنٹ کی عمارت کے احاطے میں سجے مجسموں پہ کھلم کھلا لہراتے ہیں، کسی کو منہ ٹیڑھا کرتے نہیں دیکھا۔ بعض گھروں اور بالکونیوں پہ فلسطینی پرچم لہرا رہے ہیں، کہیں حب الوطنی پہ سوال نہیں اٹھتا۔
معروف فلسطینی کارٹون کریکٹر ہندالا کے نام سے ناروے کے سماجی کارکن ایک چھوٹا پانی کا جہاز پورے یورپ بھر میں چلاتے ہیں، جس کا مقصد فلسطینی مہم کے لیے یورپی عوام میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔
ناروے کی معروف امدادی تنظیموں کا فلسطین میں کام اتنا زیادہ ہے کہ الگ کالم لکھنا ہوگا۔
اب ناروے کی ٹرین، بسوں اور عوامی مقامات پہ فلسطینی سکارف کوفیہ میں ملبوس نارویجن بہت معمول سے نظر آتے ہیں۔ آزاد فلسطین مہم میں فلسطینی پھل تربوز کو بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تربوز کی شکل سے سجی جیولری، سکارف، موبائل کورز وغیرہ بہت مقبول ہوگئے ہیں۔ بعض نوجوان نارویجن لڑکیاں آزاد فلسطین کے سٹیکر ناروے کے گروسری سٹورز پہ رکھی مصنوعات پہ چپکا دیتی ہیں۔
ایسے ہی اوسلو میں حال ہی میں فلسطینی برانڈز کی اشیا کی خریداری کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پہ نارویجن پوچھتے نظر آتے ہیں کہ فلسطینی لباس، زیتون یا فلسطینی جھنڈے کہاں سے مل سکتے ہیں۔ناروے کی یونیورسٹیوں کے احاطے میں فلسطین کے حمایتی طالب علموں نے خیمے گاڑ رکھے ہیں جہاں غزہ کے لیے فنڈز جمع کیے جاتے ہیں، یہ طالب علم یونیورسٹی انتظامیہ کو فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اپنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ناروے میں گرمیوں کے دو ماہ ہم جنس پرستی کی مہم عروج پہ ہوتی ہے۔ دلچسپ یہ کہ اس بار ہم جنس پرست بھی آزاد فلسطین کی حمایت میں بہت کھل کر سامنے آئے ہیں۔
فلسطین کی آزادی کے لیے ناروے کے لوگ اپنی پبلک اور پرائیوٹ زندگیوں میں کھل کر رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگرچہ ایسے نارویجنز کی تعداد بھی کم نہیں جو فلسطینی معاملے پہ اسرائیل کی حمایت یا غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دیتے ہوں گے لیکن بہرحال سڑکوں پہ نکلے ہزاروں نارویجنز بار بار یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ آزاد فلسطین کے معاملے پہ چپ نہیں رہیں گے۔
عوامی احتجاج کا سنتے ہیں تو لامحالہ خیال یہی آتا ہے کہ عوام کا کیا ہے، دوچار نعرے لگا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ ان کی سنتا کون ہے؟ لیکن فلسطین کے معاملے پہ ناروے کے عوام کا ردعمل اور حکومتی پالیسی بظاہر ایک سی نظر آتی ہے۔
ناروے تسلسل کے ساتھ اسرائیلی جارحیت پہ بیان دے رہا تھا لیکن ابھی 28 مئی کو ناروے نے باقاعدہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرکے اہم قدم اٹھایا ہے۔ اس فیصلے پہ ناروے میں فلسطین کاز کے حمایتیوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
ناروے اس سے قبل 90 کی دہائی میں اسرائیل فلسطین کے مابین امن کے لیے اوسلو معاہدے پہ کام کرچکا ہے۔ ناروے میں سفارت کاری کے سکالرز اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اوسلو معاہدے کو ناروے کی خارجہ پالیسی کا اہم باب گردانتے ہیں۔ اس احساس کے ساتھ کہ اوسلو معاہدہ اب سوائے کاغذ کے ایک ٹکڑے کے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
ناروے کا فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنا اسی امن معاہدے میں پھر سے جان ڈالنے کی ایک کوشش ہے، جس میں اسرائیل اور فلسطین دو آزاد ریاستوں کو امن کے ساتھ رہنے کا حل تجویز کیا گیا تھا۔
ناروے فلسطین کو تسلیم کرچکا لیکن فلسطین کی آزادی کی مہم چلانے والے نارویجنز اپنی حکومت سے اب اسرائیل کے باقاعدہ ریاستی و سفارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وقت دیکھ رہا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے، یہ بھی وقت ہی بتائے گا کہ نارویجن عوام کا یہ پرزور اور انتہائی شدید مطالبہ کیا صرف سڑکوں پہ گونجتا رہے گا یا ناروے کی خارجہ پالیسی بھی بنے گا۔
واپس کریں