عفت حسن رضوی
مغرب آزاد صحافت کا سرخیل مانا جاتا ہے اور کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے، لیکن موجودہ زمانے میں مغربی میڈیا خود ڈگمگانے لگا ہے۔مغربی میڈیا کی جانب سے اپنی حکومتوں اور اداروں کو جوابدہ بنانے کی تاریخ پرانی ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں امریکی اخبارات کی رپورٹنگ امریکی حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہوئی، یہاں تک کہ امریکہ کو ویت نام جنگ سے نکلنا پڑا۔1964 میں امریکہ نے ویت نام جنگ میں اپنے فوجی اتارے تو امریکی میڈیا کو خبریں حکومتی ذرائع سے ملا کرتی تھیں۔ اخبارات مریکی فوجوں کی بہادری، کامیابی اور امریکی حکومت کے دور رس فیصلوں کی تعریفوں سے بھرے ہوتے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ جنوبی ویت نام میں جنگی رپورٹنگ کے لیے جانے والے امریکی صحافیوں نے دیکھا کہ میدان جنگ میں امریکی نقصانات کی فہرست طویل ہے، سرکاری بیانات اور زمینی حقائق مختلف تھے، امریکی فوجی انسانی حقوق کی پامالیوں میں بھی مصروف تھے۔
امریکی میڈیا نے جوں جوں ویت نام جنگ کے حقائق رپورٹ کرنا شروع کیے، عوام میں امریکی حکومت کے خلاف غصہ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ امریکی حکومت کو ماننا پڑا کہ ویت نام جنگ میں امریکہ کی براہ راست شمولیت ایک غلطی تھی۔
حکومت اور سیاست دانوں کو جوابدہ کرنا آسان ہے لیکن مذہبی معاملات پہ تنقید کسی بھی معاشرے میں آسان نہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے میڈیا ادارے کھل کر چرچ کے پادریوں کی بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں۔
زیادہ پرانی نہیں، ابھی گذشتہ برس کی بات ہے، جب امریکی صحافتی ادارے نے افغانستان اور عراق میں امریکہ کے ڈرون اور فضائی حملوں کی غلطیوں اور سول آبادی کو غلط ٹارگٹ کیے جانے کے واقعات پہ تفصیلی رپورٹ شائع کی۔
جب سیاست دانوں کی باری آئے تو مغربی میڈیا اپنے صدور کو بھی نہیں بخشتا۔ یہ ان کے ذاتی سکینڈلز ثبوتوں کے ساتھ منظر عام پہ لانے میں بھی بے دھڑک ہے۔ ان کی بیگمات اور بچوں کے ہر ایکشن پہ نظر رکھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پانامہ لیکس جیسے بڑے پراجیکٹس میں بزنس اور سیاست کی دنیا کے بڑے ٹائیکونز کے ذاتی اور بزنس اکاؤنٹس، جائیدادوں کی تفصیلات کو سامنے لایا گیا۔
مغربی میڈیا جس کے کریڈٹ پہ اتنا کچھ ہے، آخر کیا بات ہے کہ فلسطین کے معاملے پہ جھوٹ اور پراپیگنڈے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے؟ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو رپورٹ کرنے میں ایسا کیا ہو گیا کہ مغربی میڈیا حقائق پہ آنکھیں بند کر کے اسرائیلی حکومت کے بیان کو من و عن شائع کر رہا ہے۔
مغربی میڈیا کے ادارے، جو دنیا کو ’صحافت کے سنہرے اصول‘ سکھاتے رہے، آخر کیوں اسرائیل فلسطین تنازعے پہ غیر جانبدار رپورٹنگ نہیں کر پار ہے؟اس وقت سوشل میڈیا پر فری لانس صحافیوں کی ایک بڑی تعداد صرف مغربی میڈیا کی رپورٹنگ کو جانچنے میں لگی ہے کہ جیسے مغربی میڈیا اسرائیلی ایجنڈے کو پروموٹ کر رہا ہے یا اسے عوام تک پہنچانے کے لیے اپنے پلیٹ فارمز استعمال کر رہا ہے۔
ایک ہی طرح کی خبر کو امریکہ، یورپ اور برطانیہ کے بڑے صحافتی ادارے لفظوں کی ہیرا پھیری سے ایسے پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ اسرائیل بے قصور ہے، جنگ اسرائیل پہ تھوپی گئی ہے، یہ دہشت گردوں اور پرامن اسرائیل کی جنگ ہے، اسرائیل کی فوج پروفیشل انداز میں مقابلہ کر رہی ہے۔
جو مغربی میڈیا سیاسی، معاشرتی حقائق اور تاریخی شواہد کو سامنے رکھ کر رپورٹنگ کرنے پہ زور دیتا ہے، وہ اسرائیل کے فلسطینی زمین پر قبضے کی بات سرے سے کر ہی نہیں رہا۔
جہاں رپورٹنگ میں جنیوا کنونشن، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور انسانی حقوق کے قوانین لازمی دہرائے جاتے ہیں، اسی مغربی میڈیا کو اسرائیل کی فلسطین پر چڑھائی کے دوران کیوں آنکھیں بند کرنا پڑ گئیں؟ یہاں تک کہ بعض امریکی نیوز چینلز کے مارننگ شوز میں فلسطین کی حمایت میں نکلنے والے مظاہرین کا مذاق اڑایا گیا۔
ایک نیوز چینل کی اینکر نے فلسطینی رپورٹر کو مدعو کیا اور ان کے انگریزی بولنے کے دوران لکنت پہ طنزیہ مسکرانا شروع کر دیا، وہ بھی اس وقت جب کہ وہ رپورٹر غزہ کے زمینی حقائق بیان کر رہی تھی۔وہ مغربی میڈیا، جہاں چوری کی معمولی سی خبر میں بھی صحافت کے رہنما اصول سامنے رکھے جاتے ہیں، وہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کو صحافت کے تمام تر اصول کو نظر انداز کر کے یک طرفہ رپورٹ کر رہا ہے۔
اس جانبدار رپورٹنگ کے پیچھے جہاں مشرق اور مغرب کے درمیان حائل تفریق کی گہری لکیر ہے، وہیں ’ہم بمقابلہ وہ‘، ’اپنے بمقابلہ پرائے‘، ’سفید فام بمقابلہ عرب‘ جیسے معاملات کی تفریق بھی کار فرما نظر آتی ہے۔
مغربی میڈیا میں اکثریت کارپوریٹ میڈیا کی ہے۔ ان بڑے نامور بین الاقوامی چینلز اور ویب سائٹس پر حقیقت میں کئی بڑے بزنس ٹائیکونز کا سرمایہ لگا ہوا ہے، انہیں بعض ممالک سرکاری فنڈنگ سے چلاتے ہیں۔ ان پہ بڑے طاقتور ممالک کی ریاستی پالیسی پہ عمل پیرا ہونے کا دباؤ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ مغربی میڈیا میں کاروباری شیئرز رکھنے والے سرمایہ کاروں میں کئی اسرائیلی حکومت کے ہمدرد بھی ہیں۔
میں بطور صحافی جیسے جیسے مغربی میڈیا کے دہرے معیار کو دیکھ رہی ہوں، میرے لیے کسی ایک ادارے کی خبروں پہ اندھا اعتماد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ صحافی خود شدید کنفیوژن کا شکار ہیں تو عام پبلک کا کیا حال ہو گا، جنہیں ہر طرح کا جھوٹ، سچ فیڈ کیا جا رہا ہے۔
وہ قارئین اور ناظرین جو آنکھ بند کر کے بعض بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی رپورٹنگ پہ یقین کر لیا کرتے تھے، جو جنگ اور امن کے زمانوں میں ان مغربی اداروں کی خبروں کو حتمی مانتے تھے، ان کے تجزیات کی مدد سے اپنے سیاسی نظریات کی سمت مقرر کیا کرتے تھے، وقت آگیا ہے کہ وہ بھی اس اندھے اعتماد کی جگہ درست اور غلط، سچ اور جھوٹ، خبر اور پراپیگنڈہ کو سمجھنے کے لیے ذاتی کوشش کریں۔ ایک ہی خبر کو مختلف نشریاتی ذرائع سے پرکھیں۔
یاد رکھیں، سوشل میڈیا پہ جھوٹ اور پراپیگنڈے کی جتنی بھرمار ہے، اس کے مقابلے میں مین سٹریم نیوز میڈیا بہرحال بہتر اور قابل اعتبار آپشن ہے۔
واپس کریں