دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہمارا ایک اور ہیرو کہیں منہ کے بل نہ گر جائے
عفت حسن رضوی
عفت حسن رضوی
کوئی 15 برس پہلے کا ذکر ہے، کراچی کی ایک جامعہ میں ایک لڑکی ہوا کرتی تھی، جس کے بڑے چرچے تھے۔وہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں سٹریٹ سمارٹ تھی حالانکہ عمر اس کی بھی ہمارے برابر یہی کوئی 19، 20 سال تھی لیکن بالیدگی میں ہم سے کئی برس آگے تھی۔میرا اس سے تعارف یونیورسٹی کے اول مہینوں میں ہوا، پھر ہم بھی اس کے مرید ہو گئے۔ وہ چلتی تھی تو لڑکے لڑکیوں کا ایک جھنڈ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔وہ یونیوسٹی کے کونے کھدرے میں بیٹھ جاتی تو وہیں میلہ لگ جاتا۔ وہ کینٹین جاتی تو لگتا آج جامعہ بند ہے، آج صرف سموسے اور چائے کے لیے یونیورسٹی کھلی ہے۔
حسن کے مستند معیار کے اعتبار سے اسے نہ حسین کہہ سکتے ہیں نہ بدصورت۔ وہ بس قابل قبول تھی، فیشن بھی کوئی اعلیٰ پائے کا نہ تھا البتہ اس کی شخصیت کا سارا بوجھ اس کے زرخیز دماغ نے اٹھا رکھا تھا۔
یہ اس کا دماغ ہی تھا جس نے آفت جوت رکھی تھی۔ بتاتی تھی کہ اس کے دادا نانا تقسیم ہند کے وقت لکھنو کی حویلی سے سیدھا کراچی آن اترے لیکن لکھنوئی تہذیب اپنے ساتھ لائے تھے۔
وہ جب آپ جناب پہ آجاتی تو ہم سمیت نوجوانوں کا پورا جھنڈ یوں محسوس کرتا گویا ہم لکھنو کے نواب آصف الدولہ کے محل میں کسی انقلابی شاعرہ کی گفتگو سن رہے ہوں۔
وہ انڈیا کی ریاستوں کے حوالے دے کر جب اپنا لہجہ بدل لیتی تو ہم ششدر بیٹھے سنتے۔وہ یونیوسٹی کے پہلے ہی سیمسٹر میں ہماری ہیرو بن گئی۔ جب لہک لہک کر ساحر لدھیانوی کی دل نشین نظم سناتی تو ہم بھی سن 60 اور 70 کی دہائی کے کسی رومانوی جوڑے کی طرح سوچنے لگتے حالانکہ یہ ٹچ سکرین کے موبائل کا شروعاتی دور تھا۔
وہ غالب کے کسی شعر پہ اٹک کر جب یہ پوچھتی کہ ارے مصرعہ کیا تھا ذرا بتانا تو ہم ادھر ادھر دیکھنے لگتے یہاں تک کہ میں نے گھر آکر ابو کی الماری میں پڑی دیوان غالب اپنے یونیورسٹی بیگ میں رکھنا شروع کردی کہ اگلی بار جب ہماری ہیرو کسی شعر پہ اٹکے تو کم از کم میں دیوان نکال کر شعر ڈھونڈ دوں اور تھوڑی بہت ادبی کہلاؤں۔
ہمیشہ کی طرح ان دنوں بھی کراچی میں امن و امان کے حالات خراب چل رہے تھے۔ ہماری ہیرو حبیب جالب سنا کر ہمارے دل گرماتی، جو گفتگو کشیدہ ہوچلے تو مشتاق یوسفی کا چٹکلہ چھیڑ دیتی۔
وہ آزاد خیال تھی، چھوٹے بال، بغل میں دبا انگریزی ناول، گلے میں بے نیازی سے سمٹا دوپٹا اور کندھے پہ جھولتا چمڑے کا بیگ اس کی پہچان تھے۔
ہم جاگرز پہنے اور بستہ لے کر یونیورسٹی جانے والوں کو مرعوب کرنے کے لیے یہ حلیہ ہی کافی تھا۔ انگریزی ناولز سے اس کا عشق تازہ تھا، کہتی تھی گھر کی لائبریری میں رکھی تمام اردو کُتب چاٹ چکی ہے۔
یونیورسٹی کی ایسی کچی پکی عمر میں جب دوستی میں لڑکا لڑکی کا فرق سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ ایسے میں وہ ہمیں بتاتی تھی کہ اس کی کئی لڑکوں سے دوستی ہے۔
ہر کچھ ماہ بعد اس کے رومانوی تعلقات میں کسی نئی اور طلسماتی شخصیت کا اضافہ ہوجاتا۔ وہ ہمیں انقلابی ہونے، رومانوی ہونے، غلطیاں کرنے اور غلطیاں کر کے خود ہی اپنی راہ تلاشنے کے نسخے دیتی رہتی۔
والدین، مذہب، ریاست اور معاشرے سے بغاوت کے حق میں اس کے دلائل اتنے مضبوط ہوتے کہ ہمارا پورا گروہ اس کے زیر اثر تھا۔
یونیورسٹی کی سیاست میں ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کی طلبہ تنظیمیں اسے جانتی تھیں، وہ گاہے بگاہے ان تنظیموں کی چھوٹی موٹی سی رِٹ کو چیلنج کرتی رہتی تھی۔
طلبہ تنظیموں کو ان کے سیاسی لیڈران سمیت دربدر کرنے کی دھمکی دینے سے نہیں کتراتی تھی، یونیورسٹی میں موجود رینجرز اہلکاروں کو لتاڑ دیا کرتی تھی۔
وہ یونیوسٹی کے کونے کھدرے میں بیٹھ جاتی تو وہیں میلہ لگ جاتا۔ وہ کینٹین جاتی تو لگتا آج جامعہ بند ہے، آج صرف سموسے اور چائے کے لیے یونیورسٹی کھلی ہے۔
یونیورسٹی کا چوتھا اور آخری سال آیا اور یوں ہوا کہ جو آگہی و شعور اس لڑکی نے ہمیں دیا، وہی شعور ہماری ہیرو کو کھا گیا۔
ہم بڑے ہوتے گئے اور ہم پہ کھلتا گیا کہ آزاد خیالی کا پیکر وہ لڑکی یونیورسٹی کے گیٹ پہ اپنا برقعہ اتار کر شولڈر بیگ میں رکھتی تھی۔
اتفاقاً اس کے گھر گئے تو دیکھا لائبریری کجا وہاں تو کتاب کا ایک شیلف تک نہ تھا۔ وہ جھینپی جھینپی بال باندھے اور سر پہ دوپٹہ لیے ہمیں لال شربت پیش کررہی تھی۔
اور وہیں سے علم ہوا کہ کچھ ماہ میں اس کی اپنے کزن سے شادی ہے، منگنی کی تصاویر دیکھیں تو آنکھوں کو یقین نہ آیا۔
پھر وہ گمنام ہوگئی، یہاں تک کہ بعد میں سوشل میڈیا پہ بچوں کی تصاویر اور دیسی ٹوٹکوں سے لدھی اس کی پروفائل دیکھی۔
نجانے وہ اپنے اندر کے انقلابی کو ہم دوستوں میں منتقل کرنا چاہتی تھی یا شاید وہ کبھی باغی تھی ہی نہیں، بس مقبولیت کے لیے اوڑھا گیا ایک لبادہ تھا، سراپا جھوٹ تھا۔
آج پاکستان میں انصاف کے ایک طاقتور ادارے میں موجود ہمارے ہیرو کو کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ یار دوستوں نے اسے زرخیز دماغ، باغی، سرپھرا، دبنگ کہا ہم بھی مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
دیکھا کہ وہ دلیری سے طاقتوروں کو لتاڑ رہا ہے تو ہم نے بھی اس کی جرات رندانہ کو سراہا۔ وقت کا کرنا ایسا ہوا کہ اسے طاقت کی کرسی مل گئی اور جو شعور اس نے ہمیں دیا تھا وہ کمبخت ہمارے گلے پڑ گیا۔
یہاں ہم اپنے اینگری مین سے طاقتوروں کے سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ کی امید لگائے بیٹھے ہیں، وہاں ہمارا باغی ہیرو نیویں نیویں رہ کر ریٹائر ہونے کے موڈ میں لگتا ہے۔ کہیں ہمارا ایک اور ہیرو منہ کے بل نہ گرجائے، دعا کیجیے ایسا نہ ہو۔
واپس کریں