عفت حسن رضوی
اسرائیل کے حوالے سے مغربی ممالک میں انگریزی و یورپی زبانوں کے اخبارات میں خبریں اور تجزیے آپ کو حیرت میں مبتلا کرسکتے ہیں۔یہ مسئلہ فلسطین پر دوہرے معیار اور اسرائیل کے دفاع میں ہر حد تک جاتے نظر آتے ہیں۔لبنان پر اسرائیلی حملوں کے بعد مغربی میڈیا کہتا ہے کہ اسرائیل نے روزمرہ رابطے کی ٹیکنالوجی یعنی پیجر اور واکی ٹاکی کو چھوٹے چھوٹے بموں میں تبدیل کردیا، بُرا کیا۔
لبنان بھر میں پھٹتے بموں سے عام شہریوں کی اموات ہوئیں، برا ہوا۔ اسرائیل کے اس نت نئے جنگی انداز نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں افراتفری مچا دی، بڑی بُری بات ہے۔
گو یہ سب کچھ بہت بُرا ہوا لیکن انسانیت کو اصل خطرہ چین سے ہے۔ یورپ میں جرمنی، فرانس، سپین اور اٹلی جیسے طاقت ور اور سوئیڈن، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور ناروے جیسے مال دار ملک آتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد تباہ حال یورپ جیسے اپنے پیروں پر کھڑا ہوا، آپس کی لڑائیوں سے توبہ کی اور اپنے عوام کی معاشی خوشحالی پر کام کیا تو اس کا ثمر یہ ہے کہ آج بھی یورپ کو کامیاب مستقبل کی منزل سمجھا جاتا ہے۔
قدرت یورپ پر کیسے اور کیوں مہربان ہوئی اس پر کئی کتابیں موجود ہیں لیکن اس قدر خوشحالی اور طاقت کے باوجود یورپ چین سے اتنا کیوں ڈرتا ہے، اس موضوع پر سماجی، سیاسی اور معاشی سائنس دان ابھی تحقیق کر رہے ہیں۔
یورپ میں چینی مصنوعات سڑک پر چادر بچھا کر بکتی ہیں، ٹھیلوں میلوں پر بھی چینی اشیا کی بہتات ہے۔
لیکن بڑے بڑے پرتعیش سٹورز کے شو کیس میں سجے لاکھوں ڈالرز کے آئٹم بھی بڑے یورپی برانڈ کے سائے تلے میڈ اِن چائنا ہی ہوتے ہیں۔
یورپ میں آن لائن خریداری کی ایپس میں چینی مصنوعات کا سکہ جم چکا ہے۔یورپی معیار کے نام پر کچھ حیلے بہانوں سے اگر کوئی آن لائن چینی سٹور بند کر دیا جائے تو یہ اڑیل چینی مینوفیکچررز نئے نام سے نئے پلیٹ فارم پر وہی اشیا بہتر معیار کے ساتھ بنا کر آ جاتے ہیں۔
ان آن لائن چائنیز لائن شاپنگ سٹورز میں منگولیا کے یخ پراڑوں سے لے کر صحارا کے صحرا تک ہر وہ چیز جو انسانی ہاتھ مشین کے ذریعے بنا سکتے ہیں، بکنے کو موجود ہے۔
اس نیلے آسمان تلے اگر کسی انجانے صحرائی قصبے میں بیٹھی بڑھیا ہاتھ سے نیل گائے کی کھال والی ٹوپی بُن رہی ہے تو بالکل ویسی ہی ٹوپی کی چینی کاپی اس آن لائن سٹور پر موجود ہو گی، جسے دنیا کے آخری شمالی قصبے سوال بارڈ میں بیٹھا شخص اپنے موبائل فون پر آرڈر دے کر منگوا سکتا ہے۔
یورپ کی مقامی صنعت کو اس چینی کاپی سے خطرہ ہے، جو قیمت میں کئی گنا کم ہے۔
یورپ اور چین میں کھل کر کوئی جنگ نہیں ہو رہی اس لیے سیدھا سیدھا چینی مصنوعات پر پابندی نہیں لگا سکتے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یورپی بازاروں میں الّو بولنے لگیں گے اگر یہ چین کو نکالنے کی کوشش کریں گے۔
یورپ میں کوشش یہی نظر آتی ہے کہ لوگوں میں چینی مصنوعات کے حوالے سے مختلف شوشے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ چینی کمپنی کو اگر کارڈ سے رقم ادا کریں گے تو اکاؤنٹ ہیک ہو سکتا ہے۔
ہماری ایک جرمن دوست چینی اشیا کے مکمل بائیکاٹ پر لگی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ چین ماحول دوست نہیں اور چینی کمپنیاں موسمیاتی تباہی لا رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک سویڈش سماجی کارکن کا بلاگ پڑھا جس کا سارا زور اس بات پر تھا کہ وہ اپنے بچوں کو چین سے درآمد شدہ کپڑے نہیں پہناتیں، انہیں کسی ایسے برتن میں کھانا نہیں دیتیں جو میڈ اِن چائنا ہو کیونکہ ان کو ایسا لگتا ہے کہ چینی مصنوعات میں موجود پلاسٹک اور دھاتیں انسانی استعمال کے لیےغیر معیاری ہیں۔
یورپ کے حواس پر چین کے خوف کا یہ عالم ہے کہ میں گذشتہ برس ایک مشہور یورپی یونیورسٹی کے سیمینار میں شریک تھی، جہاں سوشل سائنس فیکلٹی کے 35 طلبہ نے اپنے تحقیقاتی مقالوں کا تعارف پیش کیا۔
لطیفہ یہ ہے کہ اُن 35 میں سے 20 تحقیقی مقالوں کا موضوع چین تھا۔
ایک خاتون محقق کا موضوعِ تحقیق یہ تھا کہ یورپی بزنس مین چین سے لین دین کرتے ہوئے اپنی ذاتی سکیورٹی کے لیے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔
چین سے خوف کی ایک لہر ان سوشل میڈیا ایپس میں چھپی ہے، جنہیں بظاہر بے ضرر سمجھا جاتا ہے۔مشہور سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر مختلف ممالک میں پابندی تو اس کا آغاز ہے۔
الزام لگایا جاتا ہے کہ ان سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے یورپی شہریوں کا حساس ڈیٹا بیجنگ میں جمع کیا جاتا ہے جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹک ٹاک اور دیگر چینی ایپس نوجوانوں میں نفسیاتی مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔
وہاں چین کے نام سے عوام کو بالکل ویسے ہی خوف میں مبتلا کر رکھا ہے، جیسے چینی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں، جو کبھی بھی انسانیت کے شاہکار یورپ پر حملہ کرسکتے ہیں۔
لیکن امن عالم کے لیے جو ملک اصل چیلنج ہے، اس پر یورپ کی زبان لکنت کا شکار ہوجاتی ہے۔
یورپی ممالک زبانی جمع خرچ کر کے اسرائیل کی مذمت بھی کرلیں تو اصل کہانی اسرائیل کو معاشی اور عسکری سپورٹ دینے کی ہے، جہاں یورپ کے پَر جلتے ہیں
واپس کریں