دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جب تاج اچھالے جاتے ہیں
عفت حسن رضوی
عفت حسن رضوی
جب سلطنتیں گرتی ہیں تو محل کے مرکزی دروازے لٹیروں، چور اچکوں، عوام و خواص سب کے لیے کھل جاتے ہیں اور محلات کے چور دروازوں سے حکمران اپنی جان بچا کر بھاگتے نظر آتے ہیں۔
ایسا ہی بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے ساتھ ہوا۔بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ مظاہرین نے شیخ حسینہ کے محل کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور وہ محل کے بند دروازے توڑنے کے اتنے قریب تھے کہ شیخ حسینہ کو بھاگنے کے لیے صرف کچھ منٹ کا وقت مل سکا۔
جس گاڑی میں شیخ حسینہ کو لے جایا جانا تھا، وہ گاڑی محل کے دروازے سے واپس لوٹ آئی کیونکہ مشتعل مظاہرین حکمرانوں کی بوٹیاں تک نوچنے کے لیے تیار تھے۔
بنگلہ دیش واحد ملک نہیں جہاں حکومت گرتے ہی لوگوں نے اشرافیہ کے محلات پر دھاوا بولا۔ حال ہی میں ہم نے سری لنکا، عراق اور افغانستان میں حکومت گرتے اور لُٹتے دیکھی ہے۔
اور خیر ہو موبائل فون کے کیمروں کا کہ ہم یہ مناظر لائیو دیکھ رہے ہیں۔ اسے ہم سب کے دل میں چھپے غم و غصے کا کتھارسز کہہ سکتے ہیں کہ محلات کی لوٹ مار کی ویڈیوز کسی ایکشن فلم کے ہیروز کو دیکھنے جیسی لگتی ہیں جہاں ہیرو ولن کا مار مار کے بھرکس نکال دیتا ہے اور شائقین سیٹیاں بجاتے ہیں۔
شیخ حسینہ کے گھر کی کرسیاں، بسترے، فریج، ٹی وی مظاہرین نے سب کچھ سمیٹا۔ بنگالی مظاہرین بکریاں، بطخیں، مرغیاں اپنی بغلوں میں دبائے محل سے نکلتے نظر آئے۔
یہاں تک کہ الماریوں میں سجی بیش قیمت ساڑھیاں اور زیر جامے تک اٹھا لیے گئے۔ سوشل میڈیا پہ درجنوں ویڈیوز موجود ہیں۔
یہ مظاہرین اپنی جیت پہ تو خوش ہیں ہی لیکن مال غنیمت لوٹ لینے کی خوشی ان کے چہروں پہ دیدنی ہے۔
مظاہرین یقیناً کئی ہفتوں سے ڈھاکہ کی پولیس سے آنکھ مچولی کرتے کرتے تھک گئے ہوں گے، اسی لیے شیخ حسینہ کے کچن میں پکی مچھلی اور بریانی کے تھال تک چٹ کر گئے۔مشہور مقولہ ہے کہ مال مفت دل بے رحم، اوپر سے وہ مفت مال اگر آمر و ظالم حکمران کا ہو تو دل کچھ اور بھی بے رحم ہو جاتا ہے۔
ایسا ہی گذشتہ کچھ برسوں میں ہم نے عراق، سری لنکا، افغانستان اور اب بنگلہ دیش میں دیکھ لیا۔
سری لنکا کے سابق صدر راجا پاکسا کے محل میں شفاف پانی کا سوئمنگ پول سب سے یادگار رہا جہاں مظاہرین نے ڈبکیاں مار مار کر معزول راجا پاکسا کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا۔
لوگوں کے حافظے میں کولمبو کے محل کا وہ منظر بھی ابھی تازہ ہو گا جہاں تین سری لنکن مظاہرین بستر پہ لیٹے ہیں اور شانِ بے نیازی سے اپنے موبائل فون میں مصروف ہیں۔ یہ راجا پاکسا کا بیڈروم تھا۔اس سے قبل افغانستان میں سابق صدر اشرف غنی کے صدارتی محل میں طالبان کی انٹری تو یاد ہوگی، جب اشرف غنی کی ٹیبل پہ مسلح طالبان نے بیٹھ کر سیلفیاں لی تھیں۔
2011 میں لیبیا کے مرکز تریپولی میں معمر قذافی کے محل پہ بمباری ہوئی، قذافی توغائب ہو گئے لیکن پھر محل کو عوام نے نہیں چھوڑا۔
محل کے حمام، مہمان خانے، کچن ہر کونے کو پبلک نے ٹھونک بجا کر چیک کیا، استعمال کیا اور سامان ساتھ لے گئے۔ قذافی کے محل میں البتہ فرار ہونے کا انتظام بڑے تام جھام سے کیا گیا تھا۔
جمہور جب اپنے اپنے مسئلوں میں گھرے ہوں تو گویا سناٹے میں بیٹھے ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہور اندھے ہیں کہ انہیں حکومتی، سرکاری اور عسکری اشرافیہ کی شان و شوکت نظر نہیں آ رہی، دیکھ سب رہے ہیں لیکن لوہار کا بس ایک دن کافی ہوتا ہے۔
ڈھاکہ کے محل کے نصیب میں بھی ویسے ہی اجڑنا لکھا تھا جیسے تریپولی، بغداد، کابل اور کولمبو کے محلات اجڑ گئے۔
ان محلات کے در و دیوار شاہد ہیں کہ کیسے یہاں تخت نشین حکمرانوں طاقت کے نشے میں چور رہا کرتے تھے۔
کیسے بھوکی جمہور کو سوکھی روٹی کے مشورے دینے والی اشرافیہ پیرس کی بیش قیمت برانڈز سے کم پہ راضی نہیں ہوتی تھی۔
آج تاج اچھالے جا رہے ہیں، سب کی باری آ رہی ہے۔ فیض احمد فیض کی مردم شناسی کو داد دینے کو دل چاہتا ہے۔
وہ جانتے تھے کہ ہم سے پہلوں نے بھی دیکھا، اب بس کچھ دیر کی ہی بات ہے پھر لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ؎
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
اور ایسا ہی ہو رہا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکمرانوں کے پاؤں تلے زمین کیسے کھسکتی ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکمرانوں کے کمخواب کے بستروں پہ جوتوں سمیت لیٹ کر مظاہرین نجانے کتنے جنموں کی تھکن اتار رہے ہیں۔ ہم تو دیکھ رہے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ کے محلوں کے مکین، نجانے وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ نہیں؟
واپس کریں