عفت حسن رضوی
سال 2023 کی ابتدا دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جنوری سے ہی ہوئی تھی لیکن درگت اور مرمت کے دور کا آغاز مئی کی گرمیوں سے ہوا۔ اگرچہ موسم اب سرد ہوگیا ہے مگر گرم ہواؤں کے تھپیڑے گاہے بگاہے چل رہے ہیں۔اس قوم نے ماضی میں معاشی مشکلات، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور مارشل لا کے ادوار بڑے حوصلے سے گزارے ہیں۔ صابر شاکر لوگ ہیں یہ سال بھی جیسے تیسے کاٹ لیا۔کچھ نے چھپ چھپا کر، کچھ نے جیلوں میں، کچھ نے جلاوطنی میں، کچھ نے گمنامی میں، کچھ نے رو پیٹ کر اور کچھ نے گھسیٹ کر، کچھ نے سڑکوں پہ اور کچھ نے گھروں میں یہ وقت بھی گزار لیا۔
کوئی ایئرپورٹ سے پکڑا گیا، کسی کو ہائی کورٹ کے احاطے سے دبوچ لیا گیا، کسی کو نصف شب گھر کے بستر سے جگایا گیا اور کوئی تو چوراہے سے ہی دھرلیا گیا۔
سال 2023 کی ابتدا دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جنوری سے ہی ہوئی تھی لیکن درگت اور مرمت کے دور کا آغاز مئی کی گرمیوں سے ہوا۔ اگرچہ موسم اب سرد ہوگیا ہے مگر گرم ہواؤں کے تھپیڑے گاہے بگاہے چل رہے ہیں۔
یقیناً 1965 کی جنگ کے بعد قوم نے کچھ عرصہ اس جنگ کے آفٹر شاکس میں گزارا ہوگا، 1971 کی جنگ اور سانحہ مشرقی پاکستان کے گزر جانے کے بعد بھی کئی ماہ اسی سانحے کو روتے پیٹتے گزرے ہوں گے، سیاچن کا معرکہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے جس کے بعد پرویز مشرف کی آمریت کو قوم نے ایک دہائی تک جھیلا۔
اس گزرے سال شکر خدا کہ نہ کوئی جنگ تھی نہ فوجی آمر نے بظاہر جمہوریت پہ شب خون مارا لیکن قوم پہ سانحہ پھر بھی ٹوٹ پڑا۔
نو مئی 2023 کی تاریخ کو ریاستی اداروں نے افواج پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا، جب عمران خان کی گرفتاری پہ عوامی احتجاج شرپسندی میں تبدیل ہوگیا۔
نو مئی تھا تو ایک دن لیکن پاکستان کے لیے یہ ایک دن کئی برسوں کی جمہوری جدوجہد کو ملیا میٹ کرگیا۔ جمہوری قوت، ووٹ کو عزت، عوام کی طاقت، نوشتہ دیوار، احتجاج کا زور، ہڑتال کی دھمکی، عوام کا فیصلہ، خونی انقلاب سب ایک ہی تیر سے شکار ہوگئے۔اب نہ کسی سیاسی رہنما کی احتجاج کی کال میں دم رہا، نہ کوئی یہ کہنے جوگا رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔
یہ نو مئی کی برکت ہے کہ اب گلی کی کارنر میٹنگ بھی داخلی و خارجی سیکورٹی کا خطرہ بن سکتی ہے۔ سیاسی کارکن کا ایک نعرہ اسے غداری کے مقدمے میں پھنسوا سکتا ہے۔ پریس کانفرنس ریاست کے خلاف سازش قرار پا سکتی ہے اور سیاست دانوں کی ٹیلی فونک گفتگو کی فون ٹیپنگ کرکے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ غیر ملکی عناصر کی ملی بھگت سے بننے والا پلان ناکام بنادیا گیا۔
سال کے پانچویں مہینے سے جو کریک ڈاون کا آغاز ہوا تو سال کا آخری دن آ پہنچا، سیاست دانوں سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ لاڈلوں کی وہ وہ درگت بنائی جا رہی ہے کہ کوئی باضمیر، با شعور انسان ہو تو آئندہ لاڈلا بننے سے توبہ کرلے۔اپنی گود کے پالوں کی درگت اور مرمت کے علاوہ یہ سال اظہارِ مذمت کے حوالے سے بھی یاد کیا جائے گا۔ نو مئی سے دسمبر آگیا مگر مذمت اب بھی ڈیمانڈ میں ہے۔ سب سے پہلے تو نو مئی والے دن ہی اظہارِ مذمت کا بوجھ ٹی وی چینلز کے تجزیہ نگار بابوں پہ ڈالا گیا، ہاتھ کے ہاتھ نو مئی کی شام سے مذمتی کلمات کہہ کر بہت سے سیانوں نے اپنا دامن بچا لیا۔
پھر شاید سننے والوں کو چسکا سا لگ گیا۔ فرمائش ہوئی کہ نو مئی کو زور بازو دکھانے والی جماعت کی خواتین مذمت کریں، انہوں نے کرلیا تو ضد ہوئی اب فنکار مذمت کریں، پھر سیٹج کے جگت بازوں کی باری آئی، یہاں تک کہ ایک وقت یہ آیا کہ جو قابو آ جاتا اسی سے اظہارِ مذمت اگلوالی گئی۔
ڈھلتے سال نے حب الوطنی کا عجیب میزان دیکھا کہ جس نے عمران خان سے، نو مئی کے احتجاج سے، تحریک انصاف سے برات کا اظہار کیا، وہ بخش دیا گیا۔ جس نے ذرا آواز نکالی وہ دھر لیا گیا۔
مقتدر حلقے اظہارِ مذمت کے کچھ ایسے عادی ہوئے ہیں کہ اب اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے دھرنے میں بھی متاثرین سے اظہارِ مذمت کی ڈیمانڈ آن ٹیبل ہے، خواہش ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کا بعد میں پوچھیں پہلے فرعون، نمرود، شداد سے لے کر آج تک ہر ظالم پہ لعن طعن کریں، علیحدگی پسندوں سے اپنی علیحدگی کا اظہار کریں، بتائیں کہ باغیوں سے ان کا اور ان کے اجداد کا کوئی تعلق نہیں۔
کھیلنے کو چاند مانگنے والا بھی شاید کچھ سود و زیاں کا سوچتا ہوگا مگر اظہارِ مذمت مانگنے والوں کے بچپنے کو سلام۔ یہ سجھنا ہی نہیں چاہتے کہ درگت اور مرمت سے عوامی تحریک کو وقتی دبایا جاسکتا ہے، جڑ سے ختم کرنا ممکن نہیں، اظہارِ مذمت سے انا کی تسکین مل سکتی ہے مسئلے کا حل نہیں۔ یہ برس تو آفت کے ماروں نے جیسے تیسے، معافیاں مانگ کر، مذمت پہ مذمت کرکے گزار لیا، دھڑکا یہ ہے کہ اظہار مذمت و مرمت کی کہیں لت ہی نہ لگ جائے۔
واپس کریں