عفت حسن رضوی
مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں پہ ناراض ہونے والے تو کچھ ایسے خفا ہو رہے ہیں جیسے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سیٹیں کوئی ہزار دو ہزار تھیں اور بڑے میاں صاحب ہر امید بھری نظر کو نواز سکتے تھے لیکن جان بوجھ کر نہیں نوازا۔جیسے پارٹی ٹکٹ نہ ہوئے پارٹی رہنما کی سالگرہ کا کیک ہو گیا۔ ہر کسی کو اپنا پیس چاہیے، بڑے سائز میں، وہ بھی کیک کے اس جانب کا جہاں ملائی کی تہہ موٹی ہے اور انناس کا ٹکڑا سجا ہے۔
شکوہ یہ ہے کہ جنہوں نے گالیاں ٹھڈے کھائے انہیں ٹکٹ نہیں دیا، جنہوں نے پارٹی کو کئی بار جیت کا تحفہ دیا انہیں نظر انداز کیا گیا، جن کے دم سے پارٹی کی تنظیم سازی ہوئی انہیں نہیں پوچھا گیا۔جس نے پارٹی کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا ڈالا، پارٹی اسے بھول گئی اور وہ جنہوں نے اپنی گذشتہ جماعت کو اس وعدے پہ چھوڑا کہ اگلے انتخابات میں وہ ایڈجسٹ کر لیے جائیں گے انہیں بھی ہری جھنڈی دکھا دی گئی۔
شکایت یہ بھی کی جا رہی ہے کہ امیدواروں کے چناؤ کے فیصلے پارٹی نے خود نہیں کیے بلکہ کروائے جارہے ہیں۔ پارٹی تو سب سے پہلے اپنوں کو ہی پوچھتی لیکن کہیں ممکنہ اقتدار میں شراکت داری کی مجبوری آڑے آ رہی ہے کہیں کوئی بااثر شخصیت۔ پارٹی کے کرتا دھرتاؤں سے سوال ہو رہے ہیں کہ بتائیں فلاں کو کس کے کہنے پہ ٹکٹ ملا؟ بتائیں سرنڈر کیوں کیا؟اور کمال تو اس وقت ہو رہا ہے جب ن لیگ کے سوشل میڈیا کارکن اپنی جماعت کی جانب سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کا نام لے لے کر پوچھتے پھر رہے ہیں کہ بھئی یہ والا مانیکا کون ہے؟ یہ چوہدری صاحب کس کے سسر ہیں؟ ارے بھئی یہ وہی ہے نا جو سابق ن لیگی وزیر کا داماد ہے؟
ابھی تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پہ ہی رونے پڑے ہوئے ہیں، آگے چل کر جو خواتین کی مخصوص نشستوں پہ سیاسی خاندانوں میں سیٹیوں کی بندر بانٹ ہو گی وہ الگ ہے۔ اور پارٹیوں کا حُسن ظن تو یہ ہو گا کہ آپ، ہم اور پارٹی کے کارکنان دیکھیں گے کہ کیسے انہی افراد کے گھر کی خواتین کو اسمبلی پہنچایا جائے گا۔ ماں بیٹی، دیورانی، جیٹھانی، نند بھاوج ابھی تو انہیں بھی جمہوریت کے بکرے کی اجتماعی قربانی کے بعد ہڈی والا ایک پاؤ گوشت دیا جائے گا۔
جب سینیٹ کے چناؤ میں کروڑوں روپے کی پیٹیاں چل رہی تھیں تب بھی کہا تھا، اب بھی وہی بات ہے کہ جھنڈے لگانے والے اور نعرے لگا کر گلے خشک کرنے والے کارکنوں کو اپنی اوقات کا علم ہونا چاہیے، انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹاں ایویں نئیں لبھدیاں۔
پارٹی کو انتخابی امیدوار کی شکل میں فُل پیکج درکار ہوتا ہے، جس کے پیچھے پوری برادری ہو، بڑے نام والے سیاست دان ساتھ کھڑے ہوں، چلتی ہوئی انڈسٹری یا فیکٹری ہو، اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی ہو، جائیدادیں ہوں، جیب میں اتنے دانے ہوں کہ بڑے بڑے پینافلکس کے اشتہاری بورڈ لگوا سکے، پارٹی کے شایان شان جلسے کروا سکے اور شان سے یاد آیا ظلِ الٰہی اینڈ کمپنی کا سر پہ سایہ ہو۔
ان تمام شرائط پہ پورا اترنے والا بندہ اگر پارٹی رہنماؤں کے گھروں سے ہی مل جائے تو جماعت کو کیا لگے کہ پہلے نظریاتی رہنماؤں کی چھانٹی کرے، سکروٹنی کرے، پھر ان کی انتخابی مہم پہ پیسے لگائے اور پھر انہیں ایوانوں تک پہنچائے۔ یوں بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ جن دو خاندانوں کی جماعتیں ہیں وہ بزنس والے لوگ ہیں، نفع نقصان کا حساب لگانا خوب جانتے ہیں۔
سسر، دامادوں، دیوروں، بیٹوں، بھائیوں اور سالوں کو ن لیگ کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی ٹکٹ دے کر بھگتایا ہے۔ لگتا ہے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ خاندان بنا رہے کیونکہ رشتے داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔ دونوں جماعتیں یوں بھی جمہوریت میں موروثیت کی علم بردار ہیں، اس الیکشن میں بھی یہ علم جھکنے نہیں دیا۔
پارٹیوں نے تو جو اپنے فیصلے سنانے تھے سنا لیے، جنہیں نوازنا تھا، جنہیں ایڈجسٹ کرانا اور بھگتانا تھا، بھگتا لیا اور جنہیں ٹرخانا تھا انہیں ٹرخا دیا، لیکن اب الیکشن کے دن باری ووٹروں کی ہو گی۔
رہ گئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ان کے ساتھ، جنہوں نے کل دوسری جماعت میں رہ کر اقتدار کے مزے چکھے تھے اور آج ٹکٹ دینے والوں کو گالیوں سے نوازا کرتے تھے، تو اقتدار کی خاطر دل پہ رکھنے پڑتے ہیں۔ اچھی سیاسی زبان میں انہیں ’منی میثاقِ جمہوریت‘ کہہ لیں۔
ہاں سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے دن جو ردعمل دیکھنے کو مل سکتا ہے وہ ان کے ووٹروں کی جانب سے وہ سرپرائز ہو گا جس میں ووٹ دینے والے پارٹی کے نامزد نئے امیدوار کو چھوڑ کر آزاد حیثیت سے لڑنے والے پارٹی کے دیرینہ ساتھی اور نظریاتی رہنما کو ووٹ دیں گے۔
پارٹیوں نے تو جو اپنے فیصلے سنانے تھے سنا لیے، جنہیں نوازنا تھا، جنہیں ایڈجسٹ کرانا اور بھگتانا تھا بھگتا لیا اور جنہیں ٹرخانا تھا انہیں ٹرخا دیا، لیکن اب الیکشن کے دن باری ووٹروں کی ہو گی۔
سو سنار کی ہو چکی، بس مقتدر حلقوں نے مہلت و اجازت دی تو آٹھ فروری کو ایک لوہار کی بھی ہو گی
واپس کریں