عفت حسن رضوی
امید کی راہیں تکنے والے مایوسی اور ممکنات سے کچھ پہلے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کیفیت میں معجزہ ہو جانے کا انتظار رہتا ہے۔شعور حالات و واقعات کا جائزہ لے کر کہتا ہے کہ پلک جھپکتے سدھار ممکن ہی نہیں۔ دماغ کہتا ہے کہ مجھے معجزوں پہ سرے سے یقین نہیں اور دل کہتا ہے کہ ابھی کوئی مسیحا آئے گا اور آناً فاناً انگلی کے اشارے سے مرتے کو جگا دے گا، بھوکے کو کھلا دے گا، روتے کو ہنسا دے گا، بگڑے کو بنا دے گا۔
پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیوں کا عمومی دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کے رہنما کی شخصیت کرشماتی ہے۔ تصویر ہی کچھ ایسی پینٹ کی جاتی ہے کہ پبلک ان کرشماتی لیڈرز سے معجزاتی پرفارمنس کی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ ایسے معجزات کی امیدیں جن کے ہونے کا خود ان لیڈران کو بھی ادارک نہیں۔
وہ لیڈرز جن کے کہنے سے ہزاروں کا مجمع گہرے سناٹے میں چلا جایا کرتا تھا، لیڈرز جو بین الاقوامی فورمز پر دستاویز پھاڑ دیا کرتے تھے، لیڈرز جو حبیب جالب کی ’میں نہیں مانتا‘ سنا کر مائیک گرا دیا کرتے تھے، جن کے خطاب کی گھن گرج سے سامعین کے دل کانپ اٹھتے تھے، جن کے اشارے سے شہر کا شہر بند ہو جایا کرتا تھا، لیڈرز جن کے بلانے پہ عوام بھاگے بھاگے ڈی چوک پہنچ جایا کرتے تھے، لیڈرز جن کی ہدایت پہ کارکن مخالفین کو بھنبھوڑنے کو دوڑتے تھے۔
ان سیاسی رہنماؤں کے دامِ مسیحائی میں یہ بیمار قوم بہت آئی مگر ہمیشہ علاج ادھورا اور عین موقع پر مسیحا ندارد۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ یہ سیاسی مسیحا ابھی بیماری کی تشخیص ہی کرتے ہیں کہ اٹھا لیے جاتے ہیں، کبھی کرسی سے کبھی دنیا سے۔
مسیحا کی تلاش نے ہم پاکستانیوں کو کہاں کہاں خوار کیا ہے۔ شیروانی والے ہمیں مطلوبہ معجزہ دکھانے میں ناکام رہے تو ہمیں یونیفارم والے مسیحا کا پتہ بتا دیا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قوم کی تعمیر کا معجزاتی کام ایوب خان تھے تو ہو گیا، ورنہ نہیں ہو پاتا۔
پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا معجزاتی کرشمہ جنرل ضیا کے دم سے تھا، ورنہ قوم اس اعزاز سے محروم رہتی۔ نائن الیون کے بعد ملک پتھر کے زمانے میں واپس دھکیلا جانے والا تھا کہ جنرل مشرف نامی مسیحا نے اس بیمار کا ہاتھ تھام لیا۔
ہم 24 کروڑ کو شدت پسندی کا عفریت چمٹ جاتا اگر جنرل راحیل شریف سینہ سپر نہ ہو جاتے۔ جنرل باجوہ تھے تو قوم کو کرپشن سے پاک کرنے کا معجزاتی عمل ’سپیڈ کی لائٹ‘ سے چل رہا تھا۔ بالکل ایسے کچھ ماہ پہلے ہی قوم کو ایک اور اوتار کے مل جانے کی خوشخبری سنائی گئی ہے، بتایا گیا ہے کہ صاحب کی شخصیت معجزہ نما ہے، باتوں میں سحر ہے اور مشن نجات دہندہ وغیرہ وغیرہ۔
75 برسوں سے ملک و قوم کو بیمار ثابت کرکے پھر کارِ مسیحائی کا ذمہ صرف سیاست دان اور جرنیلوں نے اپنے ناتواں کاندھوں پہ نہیں لیا، عدلیہ بھی اس بیمار کی نبض پکڑنے کی کوشش گاہے بگاہے کرتی رہی ہے۔ماضی قریب میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی خود ساختہ مسیحا بن کر ابھرے۔ قوم کو لگتا تھا کہ اب ظلم و استبداد کی زنجیریں آپ ہی آپ ٹوٹ گریں گی، ایوانوں میں عوام کا بول بالا ہو گا اور انصاف عدالتوں کے در کھٹکھٹانے سے پہلے مل جائے گا۔ ہیرو کب اینٹی ہیرو بن گیا قوم کو یہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد علم ہوا۔
جوڈیشل ایکٹیوزم کے نام پہ قوم کو خوب چونا لگا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی مسیحائی کا نعرہ لگا کر عدالت لگائی، ڈیم فنڈ بنایا، چھاپے مارے، خوب لائن حاضریاں کروائیں، پبلک کو اس ناخدا سے بھی بڑی آس تھی کہ اب یہی نیا پار لگائے گا۔جہاں ہر ادارے میں ون مین شو چل رہا ہو وہاں شخصیت پرستی کی ایسی عادت ہو گئی ہے کہ امید نظام نہیں شخصیات سے لگاتے ہیں اور بار بار دھوکا کھاتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ نظام مخدوش ہے، یہاں جناب خضر کو بھی لاکر بٹھا دیا تو عین ممکن ہے وہ خود راستہ بھول جائیں۔
اب قوم کو دستیاب مسیحاؤں کی فہرست میں تازہ اضافہ جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے ہوا ہے۔ ان سے بندھی امیدوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یقیناً جج صاحب تو اپنا کام کرنے کا ہی سوچ رہے ہوں گے لیکن چاپلوسیے انہیں مسیحا قرار دے چکے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کو لگتا ہے کہ قاضی صاحب آگئے اب انصاف کا بول بالا ہوگا، مظلوم کی پکار بلند ہونے سے پہلے سنی جائے گی، محتسب خود بھی جوابدہ ہوں گے، آئین سے کھیلنے والوں کے ہاتھ مروڑے جائیں گے، لاپتہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں گے، زیرالتوا مقدمے جناتی تیزی سے نمٹائے جائیں گے، سپریم کورٹ سے لے کر چھوٹی کچہریوں تک نظام انصاف کی تطہیر ہو گی۔ غرض کہ اگلے بارہ تیرہ ماہ میں وہ کرامات ہوں گی، جو پچھلے 75 برس میں نہیں ہو سکیں۔
امیدیں باندھنے والوں کو بھولنا نہیں چاہیے کہ بگڑے آوے کو درست کرنے کے لیے نظام میں موجود ہر سٹیک ہولڈر کو اپنا کردار نبھانا پڑتا ہے۔ فردِ واحد ایک قدم اٹھا کر عمارت کی پہلی بنیاد تو بن سکتا ہے لیکن جب تک نظام کا سارے کل پُرزے ساتھ نہ ہوں کسی جادوئی تبدیلی کی امید بے سود ہے۔
ملک و قوم کو لاحق بیماری کا شافی علاج اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ ان مسیحاؤں کو جتنا مینڈیٹ ملا ہے یہ بس اتنا کر لیں۔ اس سے بڑھ کر مسیحائی ہو نہیں سکتی کہ جن کا کام انصاف کی فراہمی ہے وہ صرف نظامِ انصاف پہ توجہ دیں، جنہیں ملک کے دفاع کا کام سونپا گیا ہے صرف اپنی چوکیوں بیرکوں تک محدود رہیں، محکمہ زراعت والے صرف ملک کی فصلوں اور پیداوار کا ذمہ لیں، پولیس روزانہ کی دیکھ ریکھ پہ ڈیوٹی دے اور آئین و قانون اور عوام کی مفاد کی ڈیوٹی ان کے منتخب نمائندے دیں اور سب سے بڑھ کر اگر ایک معجزہ اور ہو جائے تو سارے دلدر دور ہوجائیں کہ ’ادارہ‘ ملک کے دیگر اداروں کو چلنے دے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
واپس کریں