عفت حسن رضوی
صحافت میں پڑھایا جاتا ہے کہ کسی اطلاع یا واقعے کو اس کے بنیادی اجزا اسے محض اطلاع یا واقعے سے خبر بنا دیتے ہیں۔یہ بنیادی اجزا اس واقعے سے جڑے کردار، حساسیت، وقت یا مقام کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
سندھ اور پنجاب کی سرحد کے درمیان واقع کچے کا علاقہ، جہاں ڈاکو راج آج سے نہیں گذشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، خبر کے تمام معیارات پہ پورا اترتا ہے۔شمالی سندھ کے اضلاع کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی اور شکارپور میں ڈاکوؤں کے زیر اثر کچے کے علاقے تمام تر حشر سامانیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔یہاں ڈاکو ہیں، اسلحہ ہے، جرم کی داستان ہے، اغوا کار ہیں، مغوی ہیں، پولیس کے کمانڈو ہیں، پولیس افسران ہیں، سب کچھ ہے لیکن گر کچھ نہیں ہے تو وہ ہے ایکشن۔ خلوص نیت سے مسئلے کے حل کے لیے کیا جانے والا ایکشن۔
سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جوڑتے سرحدی راستوں، قومی شاہراہوں اور ذیلی سڑکوں کو یہ کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں۔
ٹیکنالوجی اور نئی سڑکوں کا جب تک جال نہ تھا تب تک کچے کے ڈاکو ان ہی راستوں پہ گھات لگا کر نیم شب کے مسافروں کو لوٹا کرتے تھے۔ خال خال یہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے تھے۔
پھر نیٹ ورک بڑھا تو انہوں نے سائیڈ بزنس کے طور پہ ملک بھر کے چھوٹے بڑے جرائم پیشہ افراد کو اپنے یہاں پناہ دینے اور پناہ کے عوض پیسے لینے کا بھی کام کیا۔
ہنی ٹریپ کرکے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنا اور رقم لوٹنے کا کاروبار بھی یہاں شروع ہوا جبکہ سستی گاڑیاں بیچنے کے نام پہ دھوکہ دہی کی وارداتوں میں کچے کے ڈاکوؤں کا نام آیا۔
پچھلے 30-40 برس سے کچے کا علاقہ اور کچے کے ڈاکو بلا تعطل اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان کا مرکزی میڈیا کچے کے علاقے کی خبروں کو یوں بھی جگہ نہیں دے پاتا کہ ایک تو یہ علاقے کچے ہیں، دوسرا ان کا نشانہ کمزور افراد، کمزور برادری بنتی ہے جیسے کشمور، کندھ کوٹ کی ہندو برادری یا عام شہری۔
تیسرا کہ یہ ڈاکو ہیں، یہ ملک کی سکیورٹی کے لیے بظاہر کوئی قابل ذکر خطرہ نہیں بنتے۔ ڈکیت اگر سیاست سے منسلک ہو تو بڑی خبر بننے کا کوئی چانس ہوتا ہے جیسے کہ کبھی ہوا کرتا تھا لیاری کا رحمان ڈکیت۔پاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش بلکہ یوں کہہ لیں کہ ڈانواں ڈول ہوتی معیشت، ریاست اور سیاست کے بیچ کچے کے علاقے اور ڈاکو کوئی اہمیت نہیں رکھتے، لیکن حال ہی میں جو خبریں ان علاقوں سے نکل رہی ہیں بہتر ہے کہ قومی سلامتی کے اجلاسوں میں اب کچے کے علاقوں کا معاملہ بھی شامل کیا جائے۔
گذشتہ ایک ہفتے سے کشمور تا کراچی سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاج جاری ہے، مظاہرین میں زیادہ ترسندھی ہندو برادری کے لوگ شامل ہیں جو مطالبہ کر رہے ہیں کہ سندھ میں ڈاکو گردی اور بالخصوص ہندو برادری کے افراد کا پے در پے اغوا بند کرایا جائے۔یہ ڈاکو شاید ملک کے شمالی علاقوں میں موجود شدت پسند عناصر کی طرح ریاست کی کوئی دکھتی رگ پکڑنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بھی کچے سے نکل کر پکے علاقوں میں آئیں، مذاکرات کی میز پہ بیٹھیں اور میڈیا کوریج کو انجوائے کریں۔
شاید اسی لیے اب کچے کے ڈاکوؤں کا تواتر سے نشانہ سندھ کی ہندو برادری بن رہی ہے۔ ابھی گذشتہ ماہ کی خبر تھی سیما رند نامی سندھی خاتون مبینہ طور پر نیپال کے راستے انڈیا پہنچیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہیں میڈیا سرکس کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
لیکن اس خبر سے جُڑی ایک اور غیر مقبول شُرلی بھی تھی، وہ تھی ایک دھندلی سی وڈیو جس میں بظاہر سندھ کے کچے کے ڈاکو دھمکی دے رہے تھے کہ اگر سیما رند اور ان کے بچوں کو واپس پاکستان نہ لایا گیا تو سندھ میں مقیم ہندو برادری اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
انڈین میڈیا جو سیما رند اور سچن کی مبینہ لو سٹوری میں ایک گہرے جاسوسی پلاٹ کا رنگ بھر رہا ہے، اس رنگ کو مزید چوکھا کچے کے ڈاکوؤں نے کیا جو اس کہانی میں مذہبی تڑکا لگا گئے۔ یوں ہندو لڑکیوں کی زبردستی مذہب تبدیلی، زبردستی شادی اور اغوا کی خبریں بھی مزید ابھر کر سامنے آئیں۔
ڈاکو تو پھر ڈاکو ہوتا ہے، اس کا شدت پسند تنظیم کی آپریشنل صلاحتیوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن جس انداز سے سندھ میں کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے، مقامی سے صوبائی اور اب انٹرنیشنل سطح پر لا رہے ہیں بہت جلد یہ ریاست کے لیے نیا سر درد بن کر ابھریں گے اور وہ بھی ریاست کے بالکل بیچوں بیچ۔
ریاست کو ہوش میں آنا ہوگا۔ ابھی تو سندھ پولیس پہ کچے کے ڈاکوؤں سے ملی بھگت کا الزام لگا کر ہاتھ کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔
مقامی سرداروں پہ ڈاکوؤں کی سرپرستی کی بات ادھر اُدھر کہہ سن لی جاتی ہے لیکن سندھ کی ہندو اقلیت کو اپنا بنیادی ہدف بنانے کی یہی روش جاری رہی تو یہ محض کچے کے ڈاکو نہیں رہیں گے، انہیں شدت پسندی کا ہمیشہ سے آزمودہ پلیٹ فارم بھی مل جائے گا۔
واپس کریں