دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اوورسیز پاکستانی، تحریک انصاف اور کچھ غلط فہمیاں
عادل شاہ زیب
عادل شاہ زیب
صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کی اولین ترجیح سیاست پر ہی بات کرنا سمجھی جاتی ہے اور ایسا سمجھنا درست اس لیے بھی ہے کہ ہماری قوم کا محبوب مشغلہ اور کھیل سیاست پر بات کرنا اور سننا ہی ہے۔
درجنوں ٹی وی چینلز میں سے کوئی بھی آن کر کے دیکھیں دن رات صرف سیاست پر ہی بات سننے کو ملے گی۔ اور خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب حکومت تقریباً اپنی مدت پوری کر چکی ہے اور نگران حکومت اور انتخابات کی آمد آمد ہے۔
ایسے میں سیاست میڈیا کو مکمل ٹیک اوور کر لیتی ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ریاست کو درپیش اہم مسائل دب کر رہ جاتے ہیں۔
گذشتہ کئی ہفتے بیرون ملک رہا اور وہاں مقیم پاکستانیوں سے تفصیلی بات چیت اور بحث و مباحثے کا موقع بھی ملا۔ میری دانست میں اوورسیز پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور ہمیں انہیں زرمبادلہ کا چشمہ ہٹا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس خدشے کا شکار ہے کہ خدانخواستہ ہماری معیشت ڈوب چکی ہے اور موجودہ ’کرپٹ اور نکمی‘ حکومت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہماری معیشت ابھی بھی بحالی سے کوسوں دور ہے لیکن سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعظم شہباز شریف کو بدیر صحیح لیکن ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کا کریڈٹ جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چند ماہ پہلے کے مقابلے میں معاشی طور پر آج پاکستان قدرے مستحکم ہو چکا ہے۔ حالات اتنے بھی اچھے نہیں لیکن یہ بات درست ہو گی کہ دو ماہ پہلے کا پاکستان آج کے پاکستان سے بدتر تھا، شاید اس وقت تو اوورسیز پاکستانیوں کے کچھ خدشات میں وزن تھا لیکن یہ کہنا کہ پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے حقیقت سے عاری بات ہے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ ’تمام سیاسی جماعتیں چوروں اور ڈاکوؤں پر مشتمل ہیں اور پچھتر سال سے پاکستان کو لوٹ رہی ہیں۔‘ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن ہمارے معاشرے میں اتنی سرایت کر چکی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یا سرکاری/ نجی ادارہ اس سے مبرا نہیں۔خود پی ٹی آئی کے دور میں اربوں روپے کے سکینڈل سامنے آئے اور پہاڑ جیسے ابھی مزید آنے ہیں۔ صرف برطانوی کرائم ایجنسی کے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیں تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔
تحریک انصاف دور کے اس مبینہ سکینڈل میں نہ تو شہبازشریف شامل تھے، نہ آصف زرداری اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت دودھ کی دھلی نہیں، اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی پہ کرپشن کا الزام ہے تو اسی معیار سے پی ٹی آئی کو بھی ’کرپٹ جماعتوں کی فہرست‘ میں شامل کرنا ہوگا۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے خدشات کو درست ثابت کرنے کے لیے زمینی حقائق سے نابلد کچھ ایسے وی لاگرز کی مثالیں دیتے ہیں جن میں سے زیادہ تر بیرون ملک ہی مقیم ہیں۔
یہ وی لاگرز یا تو مخصوص جماعت کی محبت میں اتنے گرفتار ہو چکے ہیں کہ حقیقت سے آنکھیں چرانا ان کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا اور یا وہ ویوز اور یوٹیوب سے کمائی کے چکر میں رات کو خواب دیکھ کر صبح اپنی ہی تعبیر یوٹیوب پر چڑھا دیتے ہیں۔
یہی لوگ کبھی پاکستان فوج میں بغاوت کروا دیتے ہیں تو کبھی اہم عسکری اجلاسوں کی من گھڑت روداد سنا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے۔ ایک دفعہ پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ انہی وی لاگرز کو سن سن کر عمران خان نے فوج کے اندر اپنے حمایت کو اوور اسٹیمیٹ جبکہ آرمی چیف کی کمان پر گرفت کو انڈر اسٹیمیٹ کیا۔وہ جلسوں میں نام نہاد امریکی سازش اور حاضر سروس افسران پر قتل کے الزامات لگاتے رہے اور یہی یو ٹیوبرز انہیں چڑھا کر یہ تاثر دیتے رہے کہ فوج کی اکثریت اس سب کچھ کے باوجود آپ کے ساتھ ہے۔
تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس کا سب سے بڑا نقصان خود تحریک انصاف کو اٹھانا پڑا۔ تسلی بخش بات یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکہ میں مقیم جن پاکستانیوں سے میری بات ہوئی ان کی بڑی تعداد میرے جوابات سن کر کسی نہ کسی حد تک یہ کہہ کر مطمئن ہوئی کہ ’ہمیں تو ان باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا۔‘
حکومت کو جاتے جاتے اوورسیز پاکستانیوں کو انگیج کرنے کی باقاعدہ ایک حکمت عملی پر کام کا آغاز کرنا چاہیے۔
آج اگر ان کی اکثریت ناراض ہے اور اپنی جائیدادیں تک بیچ کر پاکستان کو مکمل طور پر چھوڑنے کی باتیں کر رہی ہے تو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد یوٹیوبرز کو سن سن کر بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہو چکی ہے۔
یہ غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں لیکن اس وقت بیرون ملک ریاست پاکستان کا اپنا بیانیہ مسنگ ہے۔ یہ معاملہ اتنا سنجیدہ ہے کہ صرف ایک وزیر یا مشیر کی تقریر سے حل نہیں ہو گا۔
ایک دفعہ پھر دہراؤں گا کہ اوورسیز پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، جنگ ہو یا قدرتی آفتیں انہوں نے مشکل کی ہر گھڑی میں ثابت کیا ہے کہ ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے اتنا ہی درد ہے جتنا کہ یہاں رہنے والے پاکستانیوں کے دلوں میں۔
میرا ذاتی مشاہدہ یہ رہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی چاہے نوکری کر رہے ہوں یا اپنا کاروبار، آج بھی پاکستانی سیاست اور ملکی معاملات ان کے ڈرائنگ روموں کا محبوب مشغلہ ہے کیونکہ ان کے دل آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔
لہٰذا نہ صرف حکومت وقت بلکہ مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ یہ معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے اور اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔
واپس کریں