مہمان کالم
اسداللہ خان غالب نے کہاتھا؎غم اگرچہ جاں گسل ہےپہ کہاں بچیں کہ دل ہےغمِ عشق گر نا ہوتا غمِ روزگار ہوتا
انسان کوزندہ رہنے کے لیے کوئی نا کوئی روزگار چاہئیے ہوتا ہے جس سے وہ اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرسکے۔حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر آئے تو اللہ نے انہیں کھیتی باڑی کرنے کاحکم دیا۔جب سے یہ دنیاقائم ہے ہرانسان اپنی بساط کے مطابق بہترین زندگی گزارنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔ہرانسان اپنی جملہ ضروریاتِ زندگی پوری کرنے سے قاصر ہوتا گیا اس کے لیے اسے دوسرے انسانوں سے اپنی تیارکردہ چیزوں کا دوسرے کی تیارکردہ چیزوں سے تبادلہ کرنا پڑا۔یوں کاروبار کاآغاز ہوا۔بعدازاں جب حکومتیں بننی شروع ہوئیں، ریاستیں وجود میں آئیں تو نظام ریاست چلانے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت پیش آئی۔ انتظامِ حکومت چلانے کے لیے حکمرانوں نے لوگوں کو ملازم رکھاجو اپنی خدمات کے عِوض رقم یا جنس وصول کرتے تھے۔ یہ ملازم پیشہ لوگ اپنی بنیادی ضروریات ریاست کی خدمت کی وجہ سے حاصل شدہ معاوضہ سے پوری کرتے تھے۔جدیددور میں جب مختلف کمپنیز وجود میں آئیں تو نوکری کا رحجان مزید بڑھنے لگا۔ لوگ سرکار کی ملازمت کے علاوہ کمپنیز اور فرمز میں ملازمت اختیار کرنے لگے۔مغرب کی طرح برصغیرمیں بھی زراعت و کاروبار کے برعکس لوگوں کا رحجان نوکریوں کی طرف بڑھنے لگا۔زراعت جو قدیم زمانوں سے انسانی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی تھی اب زوال پذیر ہونے لگی۔زراعت پاکستانیوں کا اہم پیشہ ہے مگر بدقسمتی سے گذشتہ کچھ دہائیوں سے زراعت زوال کاشکار ہے اسی طرح کاروباری طبقہ بھی تذبذب کا شکار ہے۔کاروباری عدمِ استحکام اور زراعت میں خاطر خواہ خواہ کشش نا ہونے کی وجہ سے نوکری کو ترجیح دی جاتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب
سرکاری محکموں میں معمولی سے معمولی ملازمت کے اشتہار پر لاکھوں امیدوار درخواستیں دیتے ہیں۔سرکاری ملازمت کو زیادہ پسندکیا جاتا ہے۔پڑھے لکھے،ذہین، محنتی اور باصلاحیت نوجوان سرکاری نوکری کے خواہش مند ہوتے ہیں۔اس وقت تو ایسا لگ رہا ہے کہ سرکاری نوکری ہر نوجوان کا خواب ہے۔بہت سے نوجوان اپنے خواب کو تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت کے حقدار ٹھہرے۔نوجوان میٹرک پاس کرنے کے بعد تعلیم جاری رکھنے،کوئی تکنیکی کام سیکھنے یا کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کرنے کے بجائے فوج، پولیس میں بھرتی ہونے یا کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے یا پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرنے کوترجیح دیتے ہیں۔حالانکہ نوکری کرنے والا چند سالوں بعد بھی وہیں کا وہیں رہتا ہے جبکہ کاروبار شروع کرنے والا کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بہت زیادہ آمدن حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے۔کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ نوکری میں کچھ نہیں رکھا، کاروبار کرو جبکہ نوکری کرنے والے افرادکہتے ہیں کاروبار تو گھاٹے کا سودا ہے، کوئی پتہ نہیں کب آسمان پر جگمگانے والا ایک سودے میں ہی سڑک پر آجائے۔کاروباری افراد ہر روز نیا کنواں کھودتے ہیں تاکہ اس دن کے پانی کا بندوبست ہو جبکہ نوکری کرو تو مکمل بے فکری ہے کیونکہ مستقل ماہانہ آمدنی لگ جاتی ہے۔
بات دونوں کی ٹھیک ہے لیکن نوکری میں انسان نوکر بن کر رہ جاتا ہے خواہ کتنی ہی بڑی نوکری کیوں نہ ہو اور کاروبار اس کےبرعکس ہے۔کاروبار کرنے والا محنت ضرور کرتا ہے لیکن اگر ایمانداری کے ساتھ کام کرے تو اس کی یہ محنت رنگ لاتی ہے اور اس کے لیے ترقی کے دروازے کھلتےہیں کیوں کہ انبیاءاکرام نے بھی تجارت کرنے والے کو پسند فرمایاہے۔
پاکستان کو معاشی چیلنجز سے لڑنے کے لیے اس وقت نئے کاروبار شروع کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ملکی ترقی کا پہیہ اب صرف نئے کاروبار اور نئے روزگار پیدا کرنے سے ہی چل سکتا ہے۔جتنے بھی پرُانے کاروباری ہیں وہ اس بات سے مکمل اتفاق کریں گے کہ ایک بہترین کاروباری آئیڈیا کا ہونا کسی کاروبار کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا بلکہ اس کی مثال اس پہلے قدم کی طرح ہوتی ہے جو ایک بچہ لیتا ہے اور جس کے بعد وہ بہت چوٹوں، ٹکروں سے گزر کے کامیابی سے چلنا، دوڑنا وغیرہ سیکھ لیتا ہے۔اسی طرح ایک نیا کاروباری بھی بہت ساری مشکلات اور کٹھن مراحل سے گزرتا ہے اور پھر بعد میں کہیں جاکر وہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے۔موجودہ دور خود سے کاروبار شروع کرنے سے عبارت ہے کیوں کہ بڑھتی مہنگائی نے آمدن و اخراجات کے مابین بہت بڑا فاصلہ پیدا کردیا ہے۔اگر انسان کی معاشی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو صدیوں سے انسان تجارت کو اہمیت دیتا آرہا ہے اور اسے پیشہ پیغمبری مانا گیا ہے کیونکہ جتنے بھی پیغمبر آئے انہوں نے خود سے کاروبار کرنے کواہمیت دی۔
اگر کاروبار میں اتنا منافع نا ہوتا تو کبھی بھی آپ ﷺ یہ نا فرماتے کہ کاروبار میں منافع کے نو حصے ہیں۔جب آپ کاروبار کر لیتے ہیں تو پیسے کو کیسے دوگنا کرنا ہے اس کا فارمولہ بھی ہمارے پیارے آقا ﷺ نے بیان فرما دیا کہ کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اللہ سے کاروبار کرلو۔یہی وجہ ہے اللہ دنیا میں دس گنا اور آخرت میں ستر گنا لوٹا کر دیتا ہے۔اس سے بھی زیادہ اگر آپ کو چاہئے تو اس کا بھی حل پیارے رسول ﷺ نے ہم پر واضح فرما دیا کہ صدقہ کرو مسلمان کا صدقہ اس کی عمر میں اضافہ کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے اور اللہ کے ذریعے تکبر اور فخر(کی بیماریوں)کو زائل کرتا ہے لیکن ہم کاروبار کرنے سے قبل ہی اس کے نقصانات سے ڈرنا شروع کر دیتے ہیں اسی لئے پاکستان میں کاروبار کی بجائے نوکری کو ترجیح دی جاتی ہے کہ کچھ بھی نہ ہو کم سے کم اس سے ہر ماہ تنخواہ تو مل جایا کرے گی۔اس کا سب سے بڑا نقصان جو ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ وصول کرنے کے بعد دوسرے ماہ کی تنخواہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔جس کا سب سے بڑا نقصان ہمیں اور کمپنی کو یہ ہوتا ہے کہ ہم اس جوش وجذبہ سے کام نہیں کرتے جس ولولہ سے ذاتی کاروبار میں کر سکتے ہیں۔اسی لئے دنیا کے کامیاب بزنس مین خیال کرتے ہیں کہ منافع، اجرت سے بہتر ہوتا ہے۔کیونکہ اجرت آپ کا پیٹ پالتا ہے لیکن منافع آپ کی قسمت بدل دیتا ہے۔لہذا ہمیں یہ سوچے بغیر کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے کام کو ترجیح دیتے ہوئے چھوٹے سے کام سے ہی شروع کیاجائے۔
کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ ضروری ہے۔جولوگ سرمایہ نا ہونے کی وجہ سے کاروبار نہیں کرسکتے وہ تو لازمی طور پر پیٹ پالنے کے لیے سرکاری یا پرائیویٹ نوکری تلاش کریں گے مگر جن کے پاس وسائل ہیں پھر بھی کاروبار پر نوکری کو ترجیح دیتے ہیں یہ عجیب طرزِ عمل ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستانیوں کی کثیر تعداد زراعت سے وابستہ ہے اب زراعت سے اچھاخاصا منافع کمانے کے بجائے سرکاری نوکری کے لیے تگ ودو کرنا باعثِ حیرت ہے۔اگر کاروبار وزراعت کے لیے وسائل میسر ہوں تو لازمی طور پر کاروبار کو سرکاری نوکری پرترجیح دینی چاہئیے۔ہمارے ہاں باقی دنیا کی نسبت صورت حال یکسرمختلف ہے۔لوگ پردیس سے اچھا خاصا سرمایہ کمانے کے باوجود وطن واپسی پر اپنا کاروبار نہیں شروع کرتے بلکہ چھوٹی موٹی نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہوتے ہیں اسی طرح سرکاری نوکری سے ریٹائرڈمنٹ پر اچھی خاصی پینشن لینے کے باوجود کاروبار کرنے کے بجائے کوئی پرائیویٹ نوکری شروع کرتے ہیں حالانکہ ایسے لوگوں کے پاس اتنی رقم ضرور ہوتی ہے جس سے چھوٹے پیمانے پرتو کاروبار شروع کیاجاسکتا ہے جو آئندہ نسلوں کو بھی روزگار کی الجھنوں سے آزاد کرسکتا ہے۔بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کاذاتی کاروبار موجود ہوتا ہے اس کے باوجود وہ سرکاری نوکری بھی کرتے ہیں جس وجہ سے وہ کاروبار پر توجہ نہیں دے پاتے اور یوں کچھ ہی عرصہ میں ان کا کاروبار ختم ہوجاتا ہےاور وہ محض ایک سرکاری ملازم ہی رہ جاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروبار کو ترجیح دی جائے جس سے ناصرف یہ کہ انسان خود مالی مشکلات سے نکل آتا ہے بلکہ وہ کئی خاندانوں کی کفالت کرسکتا ہے۔
کسی شاعر نے بڑی خوبصورتی سے اس صورتحال بارے لکھا ہے؎
نوکری کر رہے ہو مدت سے
تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟
واپس کریں