مہمان کالم
میری ناسازیِ طبیعت کے باعث دو کالم ناغہ ہو گئے اور اِس دوران میرا پیارا وَطن ایک سخت آزمائش سے گزر گیا۔ دراصل اِس وقت ہمارے عوام جھوٹ اور دَغابازی کے اژدھوں سے ڈسے جا رہے ہیں۔ تاریخ میں بار بار اَیسا ہوا ہے کہ جھوٹ کا پھندا کچھ عرصے بعد موت کے پھندے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور قوموں کی قومیں تباہی کے دہانے تک پہنچ جاتی ہیں۔ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں شعلہ بیاں ہٹلر نے مختلف حربے استعمال کر کے اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی اور اَپنے اقتدار کو دَوام بخشنے کے لیے طرح طرح کے فلسفے تراشنے شروع کیے۔ اُس نے غلط بیانی اور غیر معمولی جذباتیت کے ذریعے اپنی قوم کو یہ باور کرایا کہ وہ نوعِ انسانی کی بہترین قوم ہے، اِس لیے صرف اِسی کو دُنیا پر حکومت کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ آٹھ سالہ دورِ حکومت میں اُس نے گوئبلز کو وزیر ِاطلاعات کے منصب پر قائم رکھا جس کی اوّلین ذمےداری پروپیگنڈے کے ذریعے سفید جھوٹ کو سچ ثابت کرنا اور جوانوں میں جنگی جُنوں کو ہوا دَینا تھا۔ جرمن قوم میں اپنی نسلی برتری کا خمار بڑھتا گیا اور یہی خمار دُوسری جنگِ عظیم کا باعث بنا۔ ہٹلر پورے یورپ کو فتح کرنے کے منصوبے تیار کر چکا تھا اور اُس کی جنگی تیاریاں عروج پر تھیں۔
اُس وقت برطانیہ کو سپرپاور کی حیثیت حاصل تھی، کیونکہ اُس کی نوآبادیات پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ 1917 کے انقلاب کے بعد سوویت یونین بھی ایک بڑی طاقت بن چکا تھا اور اُس کے جغرافیائی محلِ وقوع نے اُسے غیر معمولی تحفظ فراہم کر دیا تھا۔ امریکہ جو کبھی برطانیہ کی ایک نو آبادی تھا، اُس نے آزادی پانے کے بعد اپنی معاشی اور فوجی قوت میں غیرمعمولی اضافہ کر لیا تھا۔ ہٹلر نے ستمبر 1939 ءمیں اپنے ہمسایہ ملکوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور فرانس کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ طاقت کے نشے میں وہ سوویت یونین سے بھی جا ٹکرایا اور یہی غلطی اُس کے تمام خواب چکناچُور کر گئی۔ جرمنی کا تمام اطراف سے محاصرہ ہوا اَور جان بچنے کی کوئی صورت نہ رہی، تو ہٹلر نے اپنی محبوبہ کے ہمراہ ایک مورچے میں خودکشی کر لی اور گوئبلز کو جرمنی کا چانسلر مقرر کر دیا۔ وہ صرف ایک دن چانسلر رہا اور اُس نے بھی اپنے پورے خاندان کے ساتھ زہر کھا لیا۔ یوں جھوٹ کا پھندا پوری جرمن قوم کی تباہی کی وجہ بنا۔ تقریباً یہی حال مسولینی نے اٹلی کا کر ڈالا کہ جھوٹ کے جام پلا پلا کر اُسے عقل و شعور سے یکسر محروم کر دیا تھا۔
پاکستان میں بھی ہم نے دو اَیسی شخصیتوں کو عروج پاتے دیکھا جن کا اوڑھنا بچھونا جوانوں میں جذباتیت اور جُنوں کی آگ بھڑکانا اور سیاست کے مسلمہ اُصولوں کو تار تار کر دینا تھا۔ مسٹر بھٹو، جو ایک ذہین سیاست دان تھے، وہ آٹھ سال فوجی آمر جنرل ایوب خاں کی خدمت بجا لاتے رہے۔ پھر وہ اُردو ڈائجسٹ کو دِیے ہوئے انٹرویو پر حکومت سے نکال دیے گئے۔ اِس پر اُنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنا لی۔ نوجوانوں کو اَپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے شعلہ بیانی سے کام لیا۔ غریبوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے سوشلزم کا نعرہ لگایا جس نے قوم کو بری طرح تقسیم کر دیا۔ 1970 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی بنگال اور مسٹر بھٹو پنجاب اسمبلی میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انتخابات نے پاکستان کو سیاسی طور پر تقسیم کر دیا تھا اور شیخ مجیب الرحمٰن اور مسٹر بھٹو اپنی اپنی اناؤں کے اسیر تھے۔ انتخابی نتائج کے مطابق شیخ مجیب الرحمٰن کا پاکستان کا وزیر ِاعظم بننے کا حق بنتا تھا، مگر مسٹر بھٹو یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اِسی چپقلش میں پاکستان دولخت ہو گیا۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مسٹربھٹو پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوئے۔ بعد ازاں صدرِ مملکت بنے اور کچھ عرصے بعد اُنہیں قومی اسمبلی نے وزیرِ اعظم منتخب کر لیا۔ اُنہوں نے قوم کو ایک متفقہ دستور دِیا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا پروگرام آگے بڑھایا اور غریبوں اور ناداروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے بعض اصلاحات بھی کیں، مگر درحقیقت اُن کا مزاج وڈیرانہ تھا۔ اُن کے عہد میں جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر نذیر احمد، تحریکِ استقلال کے خواجہ محمد رفیق اور پی پی کے ایم این اے احمد رضا قصوری کے والدِ گرامی موت کے گھاٹ اُتار دِیے گئے۔ احمد رضا قصوری نے ایف آئی آر دَرج کرائی جس میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کا حکم دینے والوں میں نامزد کیا۔ یہی ایف آئی آر مسٹر بھٹو کی سزائے موت کی بنیاد بنی۔ جھوٹ اور ظلم کا پھندا بہت خوفناک ثابت ہوا۔
جناب عمران خاں جنہوں نے پاکستان کے لیے کرکٹ میں ورلڈ کپ جیتا تھا، وہ بڑی خوبیوں کے مالک ہیں۔ بدقسمتی سے وہ بھی مسٹربھٹو کی ڈگر پر چل نکلے۔ اُنہی کا اندازِ تخاطب، اُنہی کی طرح ہنگامہ آرائی، اُنہی جیسا طنطنہ اور تقریباً اُنہی جیسا طرزِ حکومت۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ اَپنے اِس عزم کا بارہا اِعادہ کرتے رہے کہ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلاب لے کر آئیں گے، مگر وہ عاقبت نااندیش جرنیلوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں پاکستان کا معاشی دیوالیہ نکال دیا۔ سیاسی قائدین کو چور اَور عیار کے القاب سے پکارنا اپنا وطیرہ بنا لیا اور سیاسی مکالمے سے انکار کر دیا۔ اُن کی جاہ طلبی کے سبب 9 مئی کے ناقابلِ تصوّر وَاقعات رونما ہوئے۔ وہ ڈیڑھ سال سے جیل میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوامی طاقت کے زور پر اُنہیں رہائی مل جائے۔ 24 سے 26نومبر تک جو ہولناک واقعات دیکھنے میں آئے، اُن سے روح کانپ اٹھی ہے۔ 35ہزار کا لشکر اِسلام آباد پر حملہ آور ہوا۔ وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی حکمتِ عملی سے بہت بڑی بلا ٹل گئی۔ کم سے کم جانی نقصان سے حالات پر قابو پا لیا گیا، مگر جرأت مند صحافی مطیع اللہ جان پر جعلی ایف آئی آر نے حکومت کے وقار اَور اِعتبار کو بہت نقصان پہنچایا۔ ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ورنہ ہمارا بھی وہی حال ہو سکتا ہے جو ایک شاعر نے اپنے حوالے سے بیان کیا ہے
واپس کریں