دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک مزید وزیر اعظم کو ’عبرت کا نشان‘ بنانے کا اشارہ۔سید مجاہد علی
مہمان کالم
مہمان کالم
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں اہم قومی مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ تاہم ان کی فراہم کردہ معلومات یا تو زمینی حقائق سے مماثلت نہیں رکھتیں یا وہ مستقبل قریب کے بارے میں اندیشوں میں اضافہ کرتی ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان نے تین اہم پہلوؤں پر معلومات فراہم کی ہیں۔ ان میں بلوچستان کی صورت حال، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کا معاملہ شامل ہے۔ انہیں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج میں ان معاملات پر کوئی ابہام موجود نہیں ہے اور وہ اسی تندہی اور سخت روئی سے تمام اہداف حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کا اظہار دو روز پہلے منعقد ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی سامنے آیا تھا۔ منگل کو منعقد ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں احتساب کا عمل یقینی بنانے اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا عزم کیا گیا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس میں انہی امور اور نکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے جن کا ذکر کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں تھا۔
کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ’فوج میں احتساب کے عمل سے کوئی فرد بالاتر نہیں سمجھا جائے گا۔ فوج غیر متزلزل عزم سے ایک مضبوط اور کڑے احتساب کے ذریعے اپنی اقدار کی پاسداری کرتی ہے جس میں کسی قسم کی جانبداری اور استثنا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ فوج میں موجود کڑے احتسابی نظام پر عملدرآمد ادارے کے استحکام کے لیے لازم ہے اور کوئی بھی فرد اس عمل سے بالاتر اور مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ فوج دہشت گردوں، انتشار پسندوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے خلاف ضروری اور قانونی کارروائی کرنے میں حکومت، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جامع تعاون فراہم کرتی رہے گی۔ کمانڈرز نے سائبر سکیورٹی اقدامات کے ذریعے قومی سائبر سپیس کے تحفظ پر زور دیا۔ اس کے علاوہ دہشت گرد نیٹ ورکس کی ملی بھگت سے چلنے والی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف جاری کوششوں پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا‘ ۔ اعلامیے کے مطابق فورم نے ملک میں، خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سرگرم ملک دشمن قوتوں، منفی اور تخریبی عناصر اور ان کے پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی سہو لت کاروں کی سرگرمیوں اور اس کے تدارک کے لیے کیے جانے والے متعدد اقدامات پر بھی غور کیا۔
جنرل احمد شریف نے ان ہی پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا ہے تاہم سابق آئی ایس چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے حوالے سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’جیسے جیسے کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھ رہی ہے پی ٹی آئی رہنما اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف بھی فوجی ایکٹ میں کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے؟‘ اس سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کہا کہ ’یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی فرد یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہو، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے تو قانون اپنا رستہ خود بنا لے گا‘ ۔ اس طرح داخلی احتساب کے ایک قابل تحسین واقعہ کو ملک میں عمومی خوف پیدا کرنے کی بالواسطہ کوشش کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ اشارہ دینا کہ اگر شواہد سے یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان نے فیض حمید کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا تو ان کے خلاف بھی فوجی عدالت میں کارروائی ہو سکتی ہے، ملک میں موجودہ سیاسی بے یقینی اور پریشانی میں اضافہ کرے گا۔
فوج سیاست سے لاتعلق رہنے اور صرف حکومت وقت کے ساتھ قانون کے مطابق تعاون کا اعلان کرتی ہے۔ اس کا اظہار پریس کانفرنس میں آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ان الفاظ میں کیا کہ ’پاک آرمی قومی فوج ہے جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ نہ کسی سیاسی جماعت کی حامی ہے، نہ مخالف اور نہ طرفدار۔ فوج کا ہر حکومت کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق ہوتا ہے جو آئین اور قانون میں مناسب طور پر بیان کیا گیا ہے‘ ۔ اس نصب العین کی نشاندہی کرنے کے بعد فوج کے ترجمان کا ملک کے سب سے اہم اور مقبول لیڈر کے بارے میں قیاس آرائیوں کو تقویت دینے کا طریقہ ناقابل قبول اور خود اس بیان کردہ اصول کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے سانحہ 9 کے حوالے سے ایک سو کے لگ بھگ افراد کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کے فیصلہ کا حتمی حکم جاری نہیں کیا ہے۔ اس لیے ابھی یہ پوزیشن واضح نہیں ہو سکی کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کس حد تک آرمی ایکٹ کو ملک کے شہریوں پر نافذ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ البتہ آئی ایس پی آر کے سربراہ اب بالکل مختلف معاملہ میں عمران خان کو ملوث کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ جنرل احمد شریف کی یہ نیت نہ ہو اور وہ عمومی اصول بیان کرنا چاہتے ہوں لیکن صحافی نے خاص طور سے عمران خان کا نام لے سوال کیا تھا اور اس بارے میں تحریک انصاف کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ایسے میں بے یقینی اور افواہوں کو پھیلانے کا سبب بننے والا جواب دے کر اس معاملہ کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیا گیا۔ ملک میں ایک وزیر اعظم کو ایک فوجی آمر کے دور میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ پچاس سال بعد اس فیصلے کو ’نا انصافی‘ قرار دے چکی ہے۔ اب اگر مزید ایک وزیر اعظم کو فوج اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان رسہ کشی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ ملک کی تاریخ میں سیاہ ترین باب کا اضافہ ہو گا۔ اس سے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے اس کا رد عمل ماضی میں رونما ہونے والے حالات سے مختلف، غیر متوقع اور سخت ہو۔

فیض حمید کی سیاسی انجینئرنگ کے بارے میں متعدد الزامات لگائے جاتے ہیں۔ البتہ 2018 کے جس ہائبرڈ مشن کے تحت عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کا منصوبہ مکمل کیا گیا تھا، اس میں صرف فیض حمید ملوث نہیں تھے۔ یہ فوج کا بطور ادارہ متفقہ فیصلہ تھا۔ ملکی سیاست سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو نکالنے کے اس منصوبہ کی نگرانی یکے بعد دیگرے متعدد فوجی سربراہان نے کی تھی۔ بالآخر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ عمران خان وزیر اعظم بنے اور شریف و زرداری خاندان کو عدالتوں کے ذریعے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی گئی۔ البتہ سیاسی کروٹ نے ماحول بدل دیا اور وہی فوجی قیادت جو تحریک انصاف کو مسیحا بنا کر اقتدار میں لائی تھی، خود ہی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے میں سرگرم ہو گئی۔ اس وقت ملک پر جو حکومت مسلط ہے اسے بلاشبہ ایک نظر ثانی شدہ ہائبرڈ نظام کا نام دیا جاسکتا ہے۔ گویا جس سیاسی ساز باز کے نام پر عمران خان کو نشانہ بنانے کے لیے فیض حمید کے کاندھے پر بندوق رکھنے کا اشارہ دیا جا رہا ہے، وہ سازباز اور ملی بھگت اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ’قومی فوج‘ کا جو سنہری نقشہ پریس کانفرنس میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، بدقسمتی سے پاک فوج کا ماضی اس کی نفی کرتا ہے۔ یہ عین ممکن تھا کہ فوج 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات میں واقعی غیر جانبدار قرار پاتی اور کسی طرف سے اس کی طرف انگلی نہ اٹھائی جاتی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ اب تک ان انتخابات کے حوالے سے ہر سطح پر شبہات موجود ہیں اور اسی کے نتیجے میں حکومت کے علاوہ فوج پر انگشت نمائی دیکھنے میں آتی ہے۔ فوج کے سیاسی کردار کے بارے میں سوشل میڈیا پر استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈے بلاشبہ افسوسناک اور ناقابل قبول ہیں لیکن یہ صورت حال سول سیاسی معاملات میں فوج کے کردار کے حوالے سے پیدا ہونے والے شبہات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے ملکی سیاست کے اس اہم پہلو پر میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے مسلمہ فورمز پر صحت مند اور نتیجہ خیز مباحث کا آغاز نہیں ہوسکا۔ فوج کا یہ اعلان تو مستحسن ہے کہ فوج کسی سیاسی پارٹی کی دوست یا دشمن نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فوج اپنے ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جب چاہے کسی سیاسی پارٹی کو دوست بنا لیتی ہے اور حالات بدلنے پر ’دشمنی‘ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ قومی تاریخ کی اس بدنما سچائی کو محض ایک پریس کانفرنس میں ’غیر جانبداری‘ کا اعلان کر کے محو نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ماضی کے فیصلوں سے مکمل لاتعلقی کے علاوہ مستقبل میں ان غلطیوں کا اعادہ کرنے سے گریز کرنا ضروری ہو گا۔
ملک میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے حوالے سے بھی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے المناک اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ ’رواں سال دہشتگردوں کے خلاف 32 ہزار 173 مختلف نوعیت کے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران چار ہزار کے قریب آپریشن کیے گئے جن میں 90 فتنہ خوارج ہلاک ہوئے۔ وادی تیراہ میں اب تک 37 خوارج کو ہلاک کیا گیا جبکہ 14 زخمی ہوئے۔ 8 ماہ میں آپریشنز کے دوران 193 بہادر افسروں اور جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد آپریشن کیے جا رہے ہیں‘ ۔ اس غیر معمولی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاک فوج اس وقت ملک کے اندر ہونے والی مسلح بغاوتوں کو کچلنے کے لیے اپنے بے شمار وسائل اور توجہ صرف کر رہی ہے۔ اس طرح سرحدوں کی حفاظت کا کام متاثر ہو تا ہے۔ صرف یہ کہہ دینے سے کام نہیں چل سکتا کہ پاک فوج ملکی سالمیت پر بری نگاہ ڈالنے والوں کو نیست و نابود کردے گی۔ دنیا کی طاقت ور ترین فوج کو بھی سرحدوں پر توجہ مبذول رکھنے کے لیے وسائل کی فراہمی اور داخلی پریشانیوں سے فراغت درکار ہوتی ہے۔
یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے داخلی تنازعات کا سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ فوج غیر ضروری طور سے عسکری جد و جہد کرنے والے جتھوں کے خلاف اپنے وسائل اور صلاحیتیں ضائع نہ کرے بلکہ سیاسی حکومتوں اور پارٹیوں سے اصرار کرے کہ اس بے چینی کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ فوج کا ایسا اشارہ، اس کے وقار میں اضافہ کرے گا اور ملک میں سیاسی مکالمہ کی فضا بحال ہو سکے گی۔ حکومت اور سیاسی گروہوں کو اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہو سکے گا۔ گو کہ قومی اسمبلی سے استعفی دینے والے بلوچ لیڈر اختر مینگل نے خراب صورت حال کی وجہ سے دعویٰ کیا ہے کہ ’آج بلوچ عسکریت پسندی جس عروج پر پہنچ چکی ہے، یہ فوجی آپریشنز کا نتیجہ ہے۔ اب حکومت کو پہاڑوں پر موجود بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے بات کرنا ہو گی‘ ۔ تاہم اب بھی بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ایسی سیاسی قوتیں موجود ہیں جو ریاست سے ناراض ہونے کے باوجود آئین پاکستان کی مقررہ حدود میں بات چیت پرت راضی ہوں گی۔ خود اختر مینگل ان میں شامل ہیں۔
پریس کانفرنسوں کے ذریعے خوف و ہراس پیدا کر کے ملک کو مزید ناکامی کی طرف دھکیلنے کی بجائے ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘ کا اصول اختیار کیا جائے۔ سیاست دان قومی مفاہمت پیدا کریں۔ فوج سیاسی لڑائیوں میں فریق یا حکومت کا ’آلہ کار‘ بننے سے انکار کرے۔ آگے بڑھنے کا یہی ایک راستہ باقی بچا ہے۔
(بشکریہ ،کاروان ناروے)

واپس کریں