مہمان کالم
بھارت کی ایک ریاست ہے اُتر پردیش، اس میں ایک ڈویژن ہے میرٹھ، اور میرٹھ میں ایک ضلع ہے گوتم بدھ نگر، اور اس ضلع میں ایک شہر ہے ’نوئے ڈا‘، اور نوئے ڈا میں ایک مردہ خانہ ہے، اس مردہ خانے سے پچھلے دنوں ایک ویڈیو نکلی جو آج کل ہندوستان میں بہت ’مقبول‘ ہے، سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہم بھی اس سے تمتع حاصل کر چکے ہیں۔ اس چھ منٹ کی ویڈیو کے مرکزی کردار ہیں شیر سنگھ جو مردہ خانے میں خاک رُوب کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ منظر کچھ یوں ہے کہ شیر سنگھ ہے، ایک خاتون ہے، جنوں ہے، پری ہے، اور دنیا و ما فیہا سے یک سر بے خبری ہے۔ منظر تو یہ عام سا ہے مگر مردہ خانے کے پس منظر نے اسے ’’با رونق‘‘ بنا دیا ہے، شیر سنگھ اور اس عورت کے متحرک جذبوں کے آس پاس ساکن لاشیں پڑی ہوئی ہیں، زندگی کا جشن اور موت کا المیہ پہلو بہ پہلو، دونوں ایک دوسرے سے بے نیاز، دونوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں پہلا خیال پاکستان کی اشرافیہ کا آیا، جو کروڑوں زندہ لاشوں کے بیچم بیچ شیر سنگھ کی طرح رنگ رلیاں منا رہے ہیں، ماحول کی عفونت سے بے نیاز خون کی گردش کا جشن منا رہے ہیں، ارد گرد بڑھتی ہوئی لاشوں سے بے خبر، کارِ ہوس میں مستغرق۔ مردہ خانے میں یہ بزمِ نشاط ستتر سال سے برپا ہے۔ اتنے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر گئے، اب اتنے مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر گئے، دہائیاں گزر گئیں یہ خبریں پڑھتے ہوئے، اس لکیر سے لوٹ کر کوئی نہیں آیا، دوسری طرف خبر آتی ہے کہ پاکستانی اشرافیہ نے دبئی میں مزید اربوں روپے کی جائدادیں خرید لیں، یہ ایک پیٹرن ہے، اشرافیہ کی رنگ رلیوں کی خبریں اور عوام کے گریہ و بُکا کی خبریں، ’ٹرک‘ ججوں کی خبریں، فیض حمید جیسوں کے اربوں کے ڈاکے کی خبریں، 190 ملین پائونڈ کی خبریں، باجوہ صاحب کے محیرالعقول اثاثوں کی خبریں، کسی سرکاری افسر کے گھر سے نکلنے والے اربوں روپے کیش کی خبریں، اور دوسری طرف بجلی کے بلوں پر خود کشیوں کی خبریں، غربت کے مارے بے روزگار باپوں کی اپنے خاندان کو قتل کرنے کی خبریں، اپنی بچیوں سمیت نہر میں چھلانگ لگانے والی مائوں کی خبریں، یعنی سادہ لفظوں میں شیر سنگھوں کی خبریں اور لاشوں کی خبریں۔
یہ غریب ملک، یہ مفلوک الحال ریاست، یہ قرضوں کے بوجھ تلے بلبلاتا ہوا پاکستان، اپنی اشرافیہ کو 17.4 ارب ڈالرکی مراعات دیتا ہے، اور یہ سوشل میڈیا پر چھوڑی ہوئی کوئی ہوائی نہیں ہے، یہ یو این ڈی پی کے اعداد و شمار ہیں، اسے کہتے ہیں Elite Capture ، اسے کہتے ہیں کروڑوں لوگوں کے وسائل پر مٹھی بھر طاقت ور افراد کا قبضہ۔ اس سے بڑا سکینڈل کیا ہو سکتا ہے، اس بدعنوانی کی نشان دہی ہوتی رہتی ہے، کوئی جواب ہی نہیں آتا، آئی ایم ایف بھی طاقت وروں کی ان مراعات پر ناک بھوں چڑھاتا رہتا ہے، کوئی جواب ہی نہیں آتا، شیر سنگھ ایسے عالمِ نشاط میں ہے کہ اسے کچھ ہوش ہی نہیں ہے۔اشرافیہ ٹیکس ہی نہیں دیتی، اور اگر ایک ہاتھ سے ٹیکس دے تو دوسرے سے سب سڈی لے لیتی ہے،اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس تعلیم کیلئے پیسے نہیں ہیں، صحت کیلئے فنڈز نہیں ہیں، ایک افسر ریٹائر ہو تو سوا لاکھ کا ہو جاتا ہے، ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے لگ جاتے ہیں، دوسری طرف ’پولے‘ سے منہ سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمارا ڈھائی کروڑ بچہ اسکول نہیں جاتا، یعنی ہمارا مستقبل بھی غاروں میں بسر ہو گا، آبادی کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں جاتی ہے( جہاں واقعی دشمن کے بچوں کو پڑھانا چاہیے) ، یہ عوام کے بچے ہیں جنہیں مستقبل کی دوڑ سے ہی باہر کر دیا گیا ہے، یعنی اگلے پچاس سال کا بھی بندوبست کر لیا گیا ہے، محکوم محکوم رہیں گے اور حاکم حاکم، اشرافیہ کے بچے یا باہر پڑھتے ہیں یا ان کیلئے ملک میں کچھ خصوصی ادارے بنائے گئے ہیں، جہاں لاکھوں روپے فیسیں رکھ کر عوام کے بچوں کو دور رکھنے کا معقول بندوبست کیا گیا ہے۔ عباس تابشؔ فرماتے ہیں ’’
دہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے
کہ بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے پچھلے ہفتے حکومتی خرچے کم کرنے کی تجاویز مرتب کرنے والی کمیٹیوں سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ ہم کچھ تجویز کر رہے ہیں، حکومت کچھ اور ہی کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے 30 ارب روپے خرچہ کم کرنے کیلئے مشورہ دیا کہ 17 سے 22 گریڈ کی کچھ نوکریاں ختم کی جائیں، جب کہ حکومت نے 16 گریڈ سے نیچے کی نوکریاں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا، یعنی اشرافیہ نے اپنے لوگ پھر بچا لیے۔ ڈھٹائی اور کسے کہتے ہیں۔
آج کل سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے کی بات ہو رہی ہے، کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ عوام کے اور کتنے پیسے اس گناہِ بے لذت پر اڑا دیے جائیں گے، اطلاعاً عرض ہے کہ یہ دنیا کی اکلوتی سپریم کورٹ ہے جس کے جج اپنی تن خواہ اور مراعات خود مقرر کرتے ہیں، اور اپنی پنشن بھی خود مقرر کرتے ہیں، اور یہ وہ انوکھے جج ہیں جن کی تن خواہ اور پنشن ایک جتنی ہے۔ اب تو بس ایک کسر باقی ہے کہ پاکستان کے یہ طاقتور لوگ اپنے ماتھے پر ’’شیر سنگھ‘‘ کندہ کرا لیں!
واپس کریں