مہمان کالم
عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ کے ’’تصوّرِ آئینی توازن‘‘ کی روشنی میں عدلیہ کے کردار پر بات کرتے ہوئے مجھے اس امر کا احساس رہتا ہے کہ جسٹس صاحب ہماری عدلیہ کا معتبر نام ہیں۔ بطور جج اُنکے کردارو عمل پر بھی کم ہی انگلی اٹھائی گئی۔ اگلے ماہ وہ چیف جسٹس کے منصبِ بلند پر فائز ہو رہے ہیں۔ جسٹس (ر) اعجاز الاحسن مستعفی نہ ہوتے تو شاہ صاحب کو 6اگست 2025ء تک انتظار کرنا تھا۔ اب وہ 26؍اکتوبر 2024ءسے 27نومبر2027ءتک چیف جسٹس رہیں گے۔ اُن کا عہد تین سال ایک ماہ پر محیط ہوجائے گا جو گزشتہ پچیس برس کے دوران میں، جسٹس افتخار چوہدری کے بعد سب سے طویل ہوگا۔ توقع ہے کہ وہ سب سے بڑی عدالت کی پامال ہوتی ساکھ کو بحال کرسکیں گے۔
میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ’’آئینی توازن‘‘ کو غیرمتوازن بلکہ درہم برہم کرنے میں سب سے زیادہ کردار خود عدلیہ ہی کا رہاہے۔ اِس عدم توازن کا آغاز ستّر برس قبل جسٹس منیر کے ’’نظریۂِ ضرورت‘‘ سے ہوا۔ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔‘‘ سو ہر عہد کی بدلتی ضروریات کے ساتھ ساتھ نت نئی ایجادات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہ ’ماں‘ بہت ہی کثیر العیال ثابت ہوئی۔’ تشریح وتعبیر،‘’ نظریۂِ سہولت‘ سے ’مکمل انصاف ‘جیسے سپوت جنم دینے کے بعد حال ہی میں اُس کی کوکھ سے ’’آئینی توازن‘‘ نامی گُلِ نو شگفتہ نے نمود پائی ہے۔ اِن ساری ایجادات سے مسلح ہوکر، عدلیہ نے انتظامیہ اور مقننہ کی حدود کو روندتے اور فتوحات کے پھریرے لہراتے ہوئے دُور دُور تک اپنے خیمے گاڑ لئے ہیں۔ پارلیمنٹ گھر کی خادمہ بنائی جاچکی ہے۔ انتظامیہ کے سربراہ، وزیراعظم کو عدالتی کمرے کے دروازے پہ کھڑے پکار لگانے والے حاجب سے بھی کم تر خیال کیاجاتا ہے۔ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کو تو جانے دیجئے اب سیشن جج بھی بڑی روانی سے یہ جُملہ بولنے لگے ہیں۔ ’’اچھا! تو پھرہم وزیراعظم کو بلالیتے ہیں۔‘‘ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عدلیہ، ریاست کے باقی دونوں ستونوں، انتظامیہ اور مقننہ کو نگاۂِ تحقیر سے دیکھتی ہے۔ خود ہمالیہ کی سب سے بلند چوٹی پر کھڑی ہوکر اُنہیں وہ گہری پستیوں میں رینگتے حشرات الارض خیال کرتی ہے۔ اسی سے جُڑا المیّہ یہ ہے کہ جابروں اور آمروں کو تختِ طاؤس پر بٹھا کر پہاڑ کی اُسی چوٹی تک لے جاتی اور خود ہزاروں سجدے جبینوں میں سجائے، رضا و رغبت کیساتھ سب سے نچلی گھاٹیوں میں اُتر کر حشرات الارض کی طرح رینگنے لگتی ہے۔ سات دہائیوں سے ’’آئینی توازن‘‘ بگاڑنے والا اصل مرض یہی ہے۔
1973ءمیں ہمارا پہلا جمہوری آئین نافذالعمل ہوا۔ صرف چار سال بعد 5 جولائی 1977ءکو اُسے روندتے ہوئے مارشل لا لگا دیاگیا۔ ’’آئینی توازن‘‘ کے حوالے سے ہمیں اپنی تاریخ کا پہلا بڑا معرکہ درپیش ہوا۔ انتظامیہ چشمِ زدن میں عتاب گاہوں کی نذر ہوگئی۔ مقننہ کو لوحِ جمہوریت سے حرف غلط کی طرح مٹا دیاگیا۔ عدلیہ نے آئین کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے صوبائی گورنروں کے عہدے سنبھال لئے۔ ترازو کے ایک پلڑے میں عسکریہ بیٹھ گئی اور دوسرے میں عدلیہ۔ دونوں بہنیں ’’آئینی توازن‘‘ کا جھُولا جھولنے لگیں۔ اِسی توازن نے ذوالفقار علی بھٹو کا خون پیا اور یہی توازن ایک عشرے تک جمہور اور جمہوریت کی رگِ جاں پر نشتر چلاتا رہا۔ اِس میں دو آرا نہیں کہ عدالتی فیصلوں پر عمل لازم ہے۔ بلاشبہ انتظامیہ کے پاس، اِن فیصلوں کو تسلیم کرنے، اُنہیں عملی جامہ پہنانے کے سوا کوئی ’چوائس‘ نہیں۔ لیکن کیا عدلیہ نے کبھی سوچا کہ یہ آئینی تقاضا خود عدلیہ کے کندھوں پر کس قدر بھاری ذمہ داری کا بوجھ لاد دیتا ہے؟ کیا عدلیہ سوچتی ہے کہ انتظامیہ کے پاس تو فیصلے پر عمل کے سوا کوئی ’چوائس‘ نہیں لیکن ہمارے پاس یہ چوائس ضرور موجود ہے کہ ہم ہر طرح کے ’’خوف، رعایت، رغبت اور عناد‘‘ سے مبّریٰ رہتے ہوئے آئین وقانون کی متعین حدود سے تجاوز نہ کریں!ریاست کے اہم ترین ادارے کو آزمائش میں نہ ڈالیں؟ الینا کاگن (Elena Kagan) گزشتہ چودہ برس سے امریکی سپریم کورٹ کی جج چلی آ رہی ہیں۔ اُن کے ایک فیصلے کے اِن جملوں کو ’’اصول‘‘ کا درجہ حاصل ہوگیا ہے کہ ’’سپریم کورٹ بلاشبہ اس امر کی ذمہ دار ہے کہ وہ انتظامیہ کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے اور شہریوں کے حقوق سلب کرنے سے باز رکھے لیکن خود عدالت پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ اپنی حدود کو پہچانے اور عوام کے حقِ انتخاب (پارلیمنٹ) کا احترام کرے۔‘‘
جسٹس جان مارشل (Jhon Marshal) امریکی عدالتی تاریخ کا ایک اساطیری کردار ہیں جنہیں ساری دنیا میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ 35 برس تک امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ آج سے ٹھیک دو سو سال پہلے، 1824میں انہوں نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا’’Courts are the mere instruments of the Law and can "will" nothing.‘‘
(عدالتیں محض نفاذِ قانون کا ذریعہ ہیں۔ اُن کی اپنی کوئی خواہش (will)نہیں ہوسکتی)
اِسی فیصلے میں جسٹس مارشل نے مزید کہا۔ ’’عدالتی اتھارٹی کسی بھی صورت جج صاحبان کی خواہش (will) کو روبہ عمل لانے کیلئے استعمال نہیں کی جاسکتی۔ یہ اتھارٹی ہمیشہ مقننہ (پارلیمنٹ) کی خواہش (will) یا دوسرے الفاظ میں قانون کی مرضی ومنشا (will) کے مطابق استعمال کی جاسکتی ہے۔‘‘
1821 کے ایک فیصلے میں جسٹس مارشل نے ایک ایسا اصول وضع کیا جسے آج بھی مہذب ممالک میں عدالتی دستور العمل خیال کیاجاتا ہے۔ انہوں نے کہا
’’We have no more right to decline the exercise of jurisdiction which is given, than to usurp that which is not given. The one or the other, would be treason to the constitution ‘‘
(ہمیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ جو عدالتی اختیار ہمیں دیاگیا ہے اُسے استعمال نہ کریں اور اُس کے بجائے وہ اختیار غصب کریں جو ہمیں نہیں دیاگیا۔ پہلی صورت ہو یا دوسری، دونوں ہی آئین سے غدّاری کے زمرے میں آئیں گی)۔حالیہ متعدد فیصلوں میں یہ خرابی سطح آب پر تیرتی نظر آتی ہے کہ عدالتوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ واضح آئینی وقانونی تقاضوں پر اپنی خواہش (will) کو ترجیح دی۔ رکاوٹ محسوس ہوئی تو خود آئین ساز بن گئیں۔ 12جولائی کو بھی ایسا ہی ایک فیصلہ صادر ہوا جو ابھی تک فضا میں معلق ہے۔ جج صاحبان مختصر فیصلہ سنا کر طویل تعطیلات پر چلے گئے۔ نظرثانی کی تین درخواستیں اُن کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ دو ماہ ہونے کو آئے، ابھی تک تفصیلی فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا۔ سارے قضیے کی بنیاد یہ بنی کہ فیصلہ آئین وقانون کے بجائے عدالتی خواہش (will) کا عکاس دکھائی دیتا ہے جس کے لئے ’’مکمل انصاف‘‘ کی سرنگ کھودی گئی۔ ’تشریح وتعبیر‘‘ بے مہار ہوجائے تو ایسے ہی گُل کھلتے ہیں۔ اللہ کرے جسٹس منصور علی شاہ اپنے طویل عہد میں ’بانجھ کشتِ عدل‘ میں کچھ اچھی روایتیں کاشت کرسکیں۔ ’تشریح وتعبیر‘ کے ذکر پر علامہ اقبال یاد آگئے۔ فرماتے ہیں
زمن بَر صوفی و مُلّا سلامے
کہ پیغامِ خُدا گفتند مارا
ولے تاویلِ شاں درحیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفیٰ ؐ را
(میری طرف سے صوفی اور ملا کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ لیکن انہوں نے اِس پیغام کی ایسی تشریح وتاویل کی کہ خود اللہ، جبرئیل ؑ اور حضرت محمد ؐ بھی حیران رہ گئے)
بشکریہ جنگ
واپس کریں