دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قومیں جو مغرب سے اپنا وجود تسلیم نہیں کروا سکتیں۔موسیٰ پاشا
مہمان کالم
مہمان کالم
ہمارے تعلیمی اداروں میں طلباء کو صدیوں سے یہ تاثر دیا گیا کہ امریکہ کولمبس(Christopher Columbus) اور افریقہ لونگ سٹون(David Livingstone) نے دریافت کیا بلکہ نئے سرے سے ایجاد کیا - ہمالیہ کے پہاڑوں میں دنیا کا بلند ترین پہاڑ جس کو ہم ڈھائی صدیوں سے "ماونٹ ایورسٹ" کے نام سے پکارتے ہیں، یہ لاکھوں سال سے ایشیاء میں موجود تھا لیکن یہ تب دریافت ہوا جب برطانوی لٹیروں کی فوج "ایسٹ انڈیا کمپنی" کے ساتھ آئے ہوئے ایک لٹیرے اور معمولی حیثیت کے سرویئر جارج ایورسٹ (George Everest) کی اس پہاڑ پر نظر پڑی تو اس نے اس پہاڑ کو بنا سر کیے ہی، 1857 میں اس کا مقامی نام بدل کر اس کو اپنے ہی نام سے منسوب کرکے ماونٹ ایورسٹ رکھ دیا جو ہم آج تک تبدیل کرنے کی اخلاقی جرأت اپنے اندر نہیں رکھتے -
ہمارے طلباء کو یہ نہیں بتایا گیا کہ کولمبس کے پاس بحر پیمائی (Oceanography) کا جو علم تھا وہ تعلیم اس نے اسلامی درسگاہوں میں حاصل کی تھی - سمندروں میں رہنمائی کے لیے اس کے پاس جو کمپاس تھا وہ عربوں نے ایجاد کیا تھا - فرانسیسی برطانویوں کے پاس افریقہ جانے والے جو نقشے تھے وہ عرب مسلمان بحیرہ روم بحیرہ قلزم، بحیرہ ہند اور بحر الکاہل کے سفر میں صدیوں سے استعمال کر رہے تھے -
مغربی تاریخ دان بد دیانت ہیں وہ یہ نہیں بتاتے کہ یورپی سائنسدان گلیلیو، کپلر، برونو، جیرارڈ اور راجر بیکن عربوں کے ہی نقال تھے
مسلمان عینک، کمپاس، بارود، الکحل سمیت بیسیوں چیزوں کے موجد تھے، خود ایک مغربی مصنف رابرٹ بریفالٹ تشکیل انسانیت کے صفحہ 262 پر لکھتا ہے کہ؛
"مؤرخین یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد اور ہر دریافت اور ہر انکشاف کا سہرا اپنے یورپی بندے کے سر باندھ دیا ہے- مثلاً قطب نما کمپاس کی ایجاد ایک فرضی شخص فلویوگوجہ (Flavio Gioga) کی طرف منسوب کردی - ولے ناف کے آرنلڈ کو الکحل اور راجر بیکن کو بارود کا موجد بنا دیا - اور یہ بیانات وہ خوفناک جھوٹ ہیں جو یورپی تہذیب کے مآخذ کے متعلق بولے گئے ہیں - "
انسائیکلوپیڈیا آف بریٹینکا میں لفظ" جیبرGeber(جابر) " کے تحت ایک ایسے مترجم کا نام لکھا ہوا ہے جس نے معروف عرب کیمیا دان جابر بن حیان کے کیمسٹری کی کی ایک کتاب کے لاطینی ترجمہ کو اپنی تصنیف بنا لیا تھا - یہی حرکت ابن الجزار(1009ء) کی" زاد المسافر " کا لاطینی ترجمہ کرنے والے قسطنطین افریقی (1060ء) نے کی، اس نے ابن الجزار کی لکھی ہوئی کتاب کا ترجمہ کرنے کے بعد اس پر اپنا نام بطور مصنف لکھ دیا -
جو قوم اپنی کہانی غیروں کی زبانی سنتی ہے اس کا یہی حال ہوتا ہے وہ ان کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے، ان کے سامنے آنے کی جرات بھی نہیں کرسکتی - یہ قومیں مغرب سے اپنے حقوق کیا لیں گی جو ان سے اپنا وجود ہی تسلیم نہیں کروا سکتیں-
واپس کریں