مہمان کالم
جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا‘ اس وقت لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ انھیں اس عہدے پر ابھی دو سال ہوئے تھے‘ یہ 7 نومبر 2014 کو جنرل ظہیر الاسلام کے بعد ڈی جی بنے تھے‘ ان کی تقرری وزیراعظم میاں نواز شریف نے کی تھی لیکن وزیراعظم پاناما اور ڈان لیکس کی وجہ سے ان سے خوش نہیں تھے چناں چہ انھوں نے جنرل باجوہ سے پہلی ملاقات میں جنرل رضوان اختر کی جگہ جنرل نوید مختار کو ڈی جی آئی لگانے کی فرمائش کر دی‘ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نواز شریف کے رشتے دار تھے‘ یہ مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے بھانجے ہیں اور ان کے والد بریگیڈیئر مختار بھی فوج میں تھے۔
جنرل باجوہ نے نواز شریف کی سفارش مان لی‘ انھوں نے جنرل رضوان اختر کو این ڈی یو بھجوا دیا اور وزیراعظم نے لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو ڈی جی آئی تعینات کر دیا تاہم آرمی چیف نے میجر جنرل فیض حمید کو ڈی جی سی مقرر کر دیا‘ ڈی جی سی آرمی چیف اور ڈی جی آئی کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں تیسرا اہم ترین عہدہ ہوتا ہے‘ جنرل فیض حمید کے سسر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ)محمد فاروق جنرل باجوہ کے سسر میجر جنرل (ریٹائرڈ) اعجاز امجد کے دوست تھے لہٰذا جنرل باجوہ اور جنرل فیض دونوں ایک دوسرے کے فیملی فرینڈ ہیں‘ ہم آج جنرل فیض حمید سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ان میں ایک کمال کی خوبی ہے‘ یہ ’’ڈیلیوری ایکسپرٹ‘‘ ہیں‘ انھیں جو کام سونپ دیا جائے یہ وہ کام ریکارڈ مدت میں مکمل کرتے ہیں اور اس کا ملبہ بھی صاف کر دیتے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ میں سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں سے صرف ڈی جی آئی اور ڈی جی سی رابطہ کرتے ہیں۔
جنرل رضوان اختر نے اپنے دور میں ایم کیو ایم کو فارغ کر کے اس کے بطن سے تین پارٹیاں پیدا کر دی تھیں لہٰذا یہ اس زمانے میں ایم کیو ایم ایکسپرٹ سمجھے جاتے تھے‘ یہ این ڈی یو چلے گئے لیکن ایم کیو ایم سے ان کا رابطہ برقرار رہا‘ یہ رابطہ آرمی قیادت کے نوٹس میں آ گیا‘ جنرل رضوان کو بلا کر سمجھایا گیا‘ انھوں نے وعدہ کر لیا لیکن یہ باز نہ آئے اور ایم کیو ایم سے مسلسل رابطے میں رہے چناں چہ انھیں جی ایچ کیو بلا کر ثبوت ان کے سامنے رکھ دیے گئے‘ اب ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ اپنی غلطی تسلیم کر کے معذرت کریں اور پری میچور ریٹائرمنٹ لے لیں یا پھر کورٹ مارشل کے لیے تیار ہو جائیں‘ جنرل رضوان نے معذرت کی اور 8 اکتوبر 2017کو پری میچور ریٹائرمنٹ لے لی۔
میجر جنرل فیض حمید نے ڈی جی سی کی حیثیت سے کام شروع کر دیا‘ مئی 2017 میں سوشل میڈیا اور چند ٹیلی ویژن چینلز پر خبر نشر ہوئی رینجرز اور آئی ایس آئی نے ایف الیون کے گھر پر آپریشن کیا اور اس آپریشن میں اسلحہ اور رقم برآمد ہوئی‘ یہ آپریشن دو حصوں میں ہوا تھا‘ رینجرز پہلے آپریشن کے دوران غلطی سے ن لیگ کے ایک اقلیتی رکن اسمبلی کے گھر گھس گئی لیکن تلاشی اور گرفتاری کے بعد معلوم ہوا یہ غلط مقام پر آ گئے ہیں‘ یہ 2017 کا زمانہ تھا اور شریف فیملی زیرعتاب تھی لہٰذا اقلیتی رکن اسمبلی کے گھر آپریشن کو اس مہم کا حصہ سمجھا گیا جب کہ یہ غلطی تھی‘ بہرحال قصہ مختصر رینجرز دوسرے آپریشن میں ٹاپ سٹی کے مالک کنور معیز کے گھر پہنچ گئی‘ اس کی فیملی کے ساتھ بدتمیزی کی‘ زیورات‘ رقم اور کاغذات اکٹھے کیے اور معیز کو ساتھ لے گئے۔
کنور معیز کئی دن جنرل فیض حمید کی حراست میں رہا‘ کنور کے وکلاء نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دے دی‘ یہ لوگ میڈیا کے پاس بھی گئے‘ وہ جسٹس ثاقب نثار کا دور تھا اور ثاقب نثار جنرل فیض حمید کے سہولت کار اور معاون تھے‘ قصہ مزید مختصر آرمی چیف نے جنرل نوید مختار اور جنرل فیض حمید کو جی ایچ کیو بلا لیا اور ان سے ٹاپ سٹی کے بارے میں پوچھا‘ جنرل فیض حمید کا جواب تھا کنور معیز ایم کیو ایم کا سلیپر سیل چلا رہا تھا اور ہم نے اسے گرفتار کر لیا‘ اس کے گھر سے اسلحہ بھی برآمد ہوا‘ جنرل فیض حمید سے پوچھا گیا کیا آپ نے آپریشن سے پہلے باقاعدہ اجازت لی؟ جنرل فیض کا جواب تھا‘ میں ڈی جی کے نوٹس میں لے کر آیا تھا‘ جنرل نوید مختار نے بھی اس کی تصدیق کر دی یوں یہ معاملہ ختم ہو گیا‘ فوج روزانہ چھوٹے بڑے اڑھائی ہزار آپریشن کرتی ہے۔
فوجی قیادت تمام آپریشنز کی ڈیٹیلز سے واقف نہیں ہوتی اور یہ ممکن بھی نہیں ہوتا‘ بعدازاں جسٹس ثاقب نثار نے یہ کیس چیمبر میں سن کر نبٹا دیا اور یوں یہ معاملہ ختم ہوگیا مگر کنور معیز کے ساتھ کیوں کہ زیادتی ہوئی تھی لہٰذا یہ وقت بدلنے کا انتظار کرتا رہا‘ معاملہ دراصل زمین کا تھا‘ جنرل فیض حمید کا بھائی سردار نجف پٹواری تھا اور یہ زمینوں کا کاروبار کرتا تھا‘ ٹاپ سٹی اسلام آباد ائیرپورٹ کے قریب واقع ہے‘ اس میں زاہدہ جاوید نام کی ایک خاتون کی سیکڑوں کنال اراضی تھی‘ خاتون کے بقول یہ اسکیم اس کے خاوند اور اس نے شروع کی تھی اور کنور معیز ان کا ڈرائیور (ملازم) تھا‘ اس نے ان کے اعتبار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اسکیم پر قبضہ کر لیا‘ اس کا خاوند یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا اور فوت ہو گیا‘ وہ اسکیم اور زمین کی واپسی کے لیے مختلف بااثر لوگوں کے پاس جاتی رہی‘ اس سلسلے میں اس نے جنرل فیض حمید کے بھائی سردار نجف سے بھی رابطہ کر لیا اور یوں دونوں بھائیوں نے موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا‘ کنور معیز اردو سپیکنگ ہے اور اس کا تعلق کراچی سے ہے لہٰذا اسے ایم کیو ایم کا سلیپر سیل قرار دے کر اس کے گھر چھاپا مار دیا گیا اور اس میں دونوں بھائی چار سو تولے سونا‘ ہیرے‘ قیمتی گھڑیاں اور رقم کھا گئے اور اس سے زمینیں بھی ہتھیا لیں۔
بہرحال قصہ مختصر عمران خان جنرل فیض حمید اور جسٹس ثاقب نثار کی مدد سے وزیراعظم بن گئے اور جنرل فیض سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے‘ جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی بن گئے لیکن عمران خان بات جنرل فیض کی مانتے تھے‘ جنرل فیض نے سازش کر کے جنرل عاصم منیر کو ہٹوا دیا اور ان کے بعد عمران خان نے انھیں ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا جس کے بعد جنرل فیض حمید حکومت کے ماتحت نہ رہے بلکہ یہ خود حکومت بن گئے اور وزیراعظم‘ کابینہ‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ کو چلانے لگے‘ انھوں نے پارلیمنٹ چلانے کی ذمے داری اپنے ایک پرانے دوست اور ساتھی کرنل (ریٹائرڈ) لیاقت کو سونپ دی تھی‘ کرنل لیاقت نے پارلیمنٹ ہاؤس میں دفتر بنایا اور یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چلانے اور دوڑانے لگے‘ اس پر ایک بار شاہد خاقان عباسی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا ’’حکومت اپنے اور ہمارے ارکان کو ایک ہی کرنل کے ذریعے مینج کر رہی ہے‘ یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے لہٰذا ہمارے لیے الگ کرنل کا انتظام کیا جائے‘‘ قصہ مزید مختصر جنرل فیض نے فرسٹ لیڈی بشریٰ بی بی کو بھی شیشے میں اتار لیا اور یہ بھی ان پر اندھا دھند اعتماد کرنے لگیں‘ جنرل فیض حمید نے اس دوران ایک دل چسپ پلان بنایا‘ انھوں نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کے لیے تیار کیا‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل باجوہ کو تین سال ملنے کے بعد جنرل فیض حمید آرمی چیف کی دوڑ میں شامل ہو سکتے تھے۔
ان کا یہ منصوبہ کام یاب ہو گیا جس کے بعد یہ وزیراعظم اور فرسٹ لیڈی کے مزید قریب ہو گئے‘ ان کا خیال تھا وزیراعظم جنرل باجوہ کے بعد انھیں آرمی چیف بنا دیں گے‘ یہ اس کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو جڑوں سے اکھاڑ دیں گے‘ ان کی قیادت کے خلاف فیصلے آئیں گے اور یہ ڈس کوالی فائی ہو جائیں گے‘ جنرل فیض 2024 میں عمران خان کو وزیراعظم بنوائیں گے‘ وزیراعظم انھیں ایکسٹینشن دیں گے اور یہ 2028 میں عمران خان کو فارغ کر کے مارشل لاء لگا دیں گے اور یوں یہ صدر پیوٹن بن جائیں گے‘ یہ معاملہ اس سمت میں چل رہا تھا لیکن پھر عمران خان کی حماقتیں سامنے آنے لگیں‘ اس نے عالمی سطح پر ملک کے لیے مسائل پیدا کر دیے‘ فوج عوام میں بھی بری طرح بدنام ہو گئی‘ فوج کی سینئر قیادت کو جنرل فیض حمید کے پلان کی بھنک بھی پڑ گئی جس کی وجہ سے معاملات خراب ہو گئے اور فوجی قیادت نے جنرل فیض حمید کو جی ایچ کیو واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ عمران خان کو منظور نہیں تھا‘ انھوں نے شور شروع کر دیا‘ انھیں بتایا گیا جنرل فیض جب تک ایک سال کور کمانڈ نہ کر لیں یہ آرمی چیف کے لیے کوالی فائی نہیں ہو سکتے‘ عمران خان نے اس کے جواب میں کہا ’’آپ آئی ایس آئی کو کور ڈکلیئر کر دیں‘‘ انھیں بتایا گیا ’’یہ ممکن نہیں‘‘ خان کا جواب تھا ’’ہم نے آپ کو ایکسٹینشن دینے کے لیے قانون بدل دیا تھا‘ آپ بھی اب جنرل فیض اور ہمارے لیے آرمی ایکٹ میں تبدیلی کر دیں‘‘ اس جواب کے بعد آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی‘ معاملہ نوریٹرن تک پہنچ گیا۔
بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل فیض کو پشاور کا کور کمانڈر بنا دیا گیا اور جنرل ندیم انجم ان کی جگہ آ گئے‘ جنرل فیض ہٹ گئے مگر یہ پی ٹی آئی کے سسٹم کا حصہ رہے‘ یہ پشاور میں بیٹھ کر بشریٰ بی بی اور عمران خان کو مشورے دیتے رہے اور ان کی مدد بھی کرتے رہے‘ انھیں روکا گیا لیکن جب یہ باز نہ آئے تو انھیں پشاور سے بہاولپور شفٹ کر دیا گیا مگر یہ وہاں سے بھی خان کے لیے سہولت کاری کرتے رہے‘ عمران خان سے قومی اسمبلی سے استعفے بھی جنرل فیض حمید نے دلوائے تھے اور خان صاحب نے پنجاب اور کے پی کی حکومتیں بھی ان کے مشورے سے توڑی تھیں۔
جنرل عاصم منیر کی تقرری رکوانے کے لیے لانگ مارچ کا مشورہ بھی جنرل فیض نے دیا تھا‘ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی یہ ہینڈل کر رہے تھے‘ انھوں نے سعودی شاہی خاندان کو جنرل عاصم منیر کے عقائد کے بارے میں بھی غلط اطلاعات دی تھیں تاہم اس کے باوجود جنرل عاصم منیر آرمی چیف تعینات ہو گئے جس کے بعد جنرل فیض نے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن انھوں نے پی ٹی آئی کی سہولت کاری سے ریٹائرمنٹ نہ لی‘ یہ ’’ان سائیڈر‘‘ تھے لہٰذا یہ فوج کے حساس اعصابی نظام سے واقف تھے‘ یہ جانتے تھے فوج کس چیز سے زیادہ متاثر ہوتی ہے چناں چہ انھوں نے اس حساس اعصابی نظام پر حملے شروع کر دیے۔ (جاری ہے)
واپس کریں