دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایٹم بم بنا لیا موٹرسائیکل نہ بن پائی۔محمد عرفان صدیقی
مہمان کالم
مہمان کالم
اچھا تو نہیں لگتا کہ ہم اپنی ہر ناکامی کیلئے بھارت کی کامیابی کی مثال دیں لیکن کیا کریں قوم کے سامنے آنا چاہیے کہ جب ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے( بلکہ ابھی تک لے رہے ہیں) تو اس وقت دشمن کس طرح ترقی کی منازل طے کررہا تھا ،یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے جب بھارت نے جاپانی و دیگر غیر ملکی کمپنیوں کو اپنے ملک میں گاڑیاں تیار کرنے کے کارخانے لگانے کی اجازت دی اور ان کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ پانچ سال کے اندر جاپانی و غیر ملکی کاربنانے والی کمپنیاں انجن سمیت اپنی تمام مینوفیکچرنگ بھارت منتقل کردیں گی پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک طرف بھارت نے اپنے ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کے علاوہ تمام غیر ملکی گاڑیوں کی امپورٹ پر پابندی عائد کردی ،دوسری جانب جاپانی سمیت تمام غیر ملکی کمپنیوں کو اس بات کا پابند کردیا کہ جلد از جلد گاڑی کی ڈیزائننگ سے لیکر تمام پرزہ جات کی مینوفیکچرنگ بھارت منتقل کردی جائے ، بھارتی حکومت نے تمام معاملات پر نظر رکھی اور چند سال کے اندر اندر بھارت میں گاڑیوں کے انجن اور پرزہ جات تیار کرنے والے کارخانوں کی لائن لگتی چلی گئی اور چند سال میں بھارت میں سو فیصد گاڑیاں تیار ہونے لگیں ، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف تو بھارت میں گاڑیاں اور اسکے پارٹس تیار کرنے کے ہزاروں کارخانے لگے جہاں لاکھوں لوگوں کو ملازمت کے مواقع ملے۔صرف اتنا ہی نہیں آج بھارت میں بہترین چھ سوساٹھ سی سی گاڑی صرف ساڑھے تین لاکھ روپے میں مل جاتی ہے جبکہ ہزار ، پندرہ سو اور دوہزار سی سی کی گاڑیاں بھی پندرہ سے پچیس لاکھ روپے میں برانڈ نیو خریدی جاسکتی ہیں ۔ یہ صورتحال موٹرسائیکل کے حوالے سے بھی رہی ،اس وقت بھارت میں گاڑیوں کے علاوہ جدید ترین غیر ملکی موٹرسائیکل کمپنیوں نے اپنے کارخانے لگائے ہوئے ہیں جہاں سو فیصد پرزہ جات تیار ہوتے ہیں اور لاکھوں افراد کو ملازمت کے مواقع حاصل ہیں جبکہ بھارتی عوام کو انتہائی کم قیمت پر بہترین معیار کی موٹرسائیکلیں میسر ہیں ۔آج بھارتی شہری فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا ہے اور اپنا راکٹ خلا میں پہنچایا ہے تو یہ سب ہم نے اسمگل یا امپورٹ نہیں کیابلکہ خود تیار کیا ہے۔ اب ہم کچھ موازنہ اپنے ملک سے کرتے ہیں پاکستان نے ساٹھ کی دہائی میں جاپان کی ایک معروف کمپنی کو پاکستان میں اپنا پلانٹ لگانے کی اجازت دی ، جبکہ اسی کی
دہائی میں ایک اور دوسری جاپانی کمپنی کو اپنا پلانٹ لگانے کی اجازت دی ، جبکہ ایک امریکی کمپنی نے تو پچاس کی دہائی میں پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے کا پلانٹ لگایا تھا ، سب کے ساتھ یہی معاہدہ ہوا تھا کہ یہ تمام کمپنیاں اگلے پانچ سے سات سال میں انجن سمیت اپنی تمام مینوفیکچرنگ پاکستان منتقل کردیں گی لیکن پاکستانی حکومت اور سرکاری اداروں کی ملی بھگت سے ایسا ممکن نہ ہوا اور صرف چالیس سے پچاس فیصد پرزہ جات پاکستان میں تیار ہوتے اورباقی رقم یہ کمپنیاں ڈالروں کی شکل میں اپنے ممالک بھجوا کر وہاں سے تیار پارٹس منگوا کر گاڑیاں اسمبل کرتیں اور عوام کے حوالے کردیتیں جس سےعوام کو معیاری گاڑیاں بھی نہ مل سکیں اور جو کارخانے گاڑیاں تیار کرنے کیلئے لگنے تھے وہ بھی نہ لگ سکے جس سے عوام کو وہ روزگار بھی حاصل نہ ہوسکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ یہاں پر پاکستان کے سرکاری ادارے پاکستان انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کی نااہلی پر بھی بات کرنا ضروری ہے جو ان اداروں کو چالیس سے پچاس سال بعد بھی گاڑیوں کی سوفیصد پاکستان میں تیاری پر مجبور نہیں کرسکا ۔یہی حال موٹرسائیکل تیار کرنے والے اداروں کا بھی ہے جو پچاس سال سے لیکر آج تک سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی اداروں کو سو فیصد مینوفیکچرنگ پاکستان میں منتقل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ اس حوالے سے آئے دن اس طرح کی خبریں آتی ہیں کہ یہ ادارے پاکستان کے سرکاری اداروں اور سیاستدانوں کو رام کر کے نہ صرف پاکستان میں مینوفیکچرنگ نہ کرنے پر راضی کرتے ہیں جبکہ انہی سرکاری اداروں اور حکمرانوں پر یہ بھی الزام ہے کہ یہ ان اداروںسے مال پانی لے کر بیرون ملک سے آنے والی غیر ملکی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں اضافہ کردیتے ہیں تاکہ عوام مقامی طور پر اسمبل ہونے والی غیر معیاری گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں خریدنے پر مجبور رہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایک تحقیقاتی بورڈ قائم کرے جو اس بات کی تحقیقات کرے کہ یہ غیر ملکی کمپنیاں پچاس سال بعد بھی پاکستان میں سو فیصد مینو فیکچرنگ کیوں نہیں کر رہیں ، جبکہ ان کمپنیوں کی مانیٹرنگ کرنے والے سرکاری اداروں کے افسران کی جائیدادوں اور آمدن کی چھان بین بھی ہونی چاہیے جو ہزاروں اور لاکھوں روپے تنخواہوں کے باوجود کروڑوں اور اربوں روپے کی جائیدادیں کس طرح بنا کر بیٹھے ہیں ۔ اس طرح ریاست اور قوم کو نقصان پہنچانے والوں کا پول بھی کھل جائے گا اورپاکستان پر لگا یہ داغ بھی دھل سکے گا کہ ایٹم بم بنانے والی قوم ایک موٹرسائیکل کا انجن بھی نہیں بنا سکتی ، یقین جانیںاسی طرح کے سخت احتساب میں ملک و قوم کا بھلاہے۔
واپس کریں